قومی زبان

زندگی کے گیتوں کے بول سننا

سماعت منجمد کے مالک سماعتوں پر جمود ہو تو دنوں کو ہفتوں میں ڈھالنے کا نہیں کوئی مشغلہ بجز یہ کہ وادیوں میں صدا کی دوری پہ بجنے والے سہانے سپنوں کے ڈھول سننا رفو گر دامن تمنا ہر ایک دھڑکن پہ دل میں اک ٹیس سی نہ اٹھے ہر ایک حرکت پہ آبلوں میں مری ہوئی سانس جی نہ اٹھے کسی کی آواز پا سے ...

مزید پڑھیے

پر اب یہ مشکل ہے

میں داستان وفا کے اس موڑ پر عجب کشمکش میں ہوں اب کہ ذہن و دل کی لڑائیاں تو رہ وفا کے ہر اک مسافر کی زندگی کا ہیں جزو لازم ہے اب یہ مشکل کہ دل میں اور مجھ میں ٹھن گئی ہے مرا یہ اصرار ہے ملن کی رتوں کی پہلی سحر تراشوں پہ دل بضد ہے کہ شام غم کے دیے کی لو کو لہو سے سپیچوں میں دل کی سچائی پر ...

مزید پڑھیے

جان مجبور ہوں

اک طرف تیرے لب تیری آنکھوں میں جلتے چراغوں کی لو تیرے عارض پہ کرنوں کا بڑھتا ہجوم تیرا جھلمل بدن تیری رنگیں صبا اور ان کے سوا سارے رنگوں کی موت سب صداؤں کے سکتے پہ گریہ کناں بس تری اک صدا اور اک وار اور زہر کا ایک جام دوسری سمت ہیں روشنی رنگ کرنیں صدائیں ادائیں بدن ہی بدن ایک تیرے ...

مزید پڑھیے

دوراہا

عجب دوراہے پہ آ کھڑا ہوں ادھر ترے حسن کی دھنک ہے ادھر عدو کی کمین گاہوں میں اسلحے کی چمک دمک ہے ادھر تری نقرئی ہنسی ہے ادھر سماعت خراش چیخوں کا زیر و بم ہے ادھر ترے طرح جسم زندگی کی حرارتوں کا نقیب بن کر بلا رہا ہے ادھر اجل نت زندگی کو تھپک تھپک کر سلا رہا ہے عجب دوراہے پہ آ کھڑا ...

مزید پڑھیے

چھلنی چھلنی سائباں

تمازت سے محروم افکار کے زرد سورج اگل کر سبھی اپنے اسلاف کی کھوپڑیوں کی مالائیں پہنے اجنمے ہوئے اپنے بچوں کی شکلوں کو بارود کے ڈھیر پر رکھ رہے ہیں وہ بچے جنہیں جنم لینا پڑا تھا وہ اپنے گھروں میں اندھیرے سجا کر چراغوں کو اپنی ہی قبروں پہ رکھنے چلے آ رہے ہیں یہاں ماں کے سینے سے ...

مزید پڑھیے

آدمی اک پیڑ ہے

یوں تو موسم آئے بھی اور چل دئے کتنے موسم کیا دئے کیا لے گئے کس کو پتہ ہم تو اتنا جانتے ہیں پیڑ پر جب کونپلیں پھوٹیں کھلے کچھ پھول تو یہ خیر کہلائے مگر جب پیڑ کی شاخوں پہ کانٹے اگ رہے تھے شر کہا دنیا نے اس کو یاد رکھنا پیڑ جب تک پیڑ ہے کونپلیں اور پھول کانٹے جنم لیتے ہی رہیں ...

مزید پڑھیے

ردائے سنگ اوڑھ کر نہ سو گیا ہو کانچ بھی

ردائے سنگ اوڑھ کر نہ سو گیا ہو کانچ بھی حریم زخم لازمی ہے خیر و شر کی جانچ بھی گئے برس کی راکھ جس کو دان کی تھی آ گیا اسی ندی سے غسل کر کے دو ہزار پانچ بھی محاورے کی رو سے جانچئے تو وہ سراب ہے میں سانچ بھی نہیں نہیں ہے اس بدن کی آنچ بھی بھرم ذرا سا مستیوں کا رکھ کہ ہم ہیں گھات ...

مزید پڑھیے

تری چال دھن تری سانس سر مرے دل کو آ کے سنبھال بھی

تری چال دھن تری سانس سر مرے دل کو آ کے سنبھال بھی جو یہ جل ترنگ ذرا بجا تو یہ ڈال دے گا دھمال بھی نہ اچھال جھیل میں کنکری کہ یہ خوفناک سا کھیل ہے اسی کھیل میں نہ اتر پڑے تری آنکھ پر یہ وبال بھی کئی لوگ مورچہ بند خوف کی ریت میں ہیں کرم کرم ترے ہاتھ میں یہ جو سنگ ہے کسی سمت اس کو ...

مزید پڑھیے

حاصل خموشی

خموشی کے موتی پرونے کا حاصل کبھی دل میں نشتر کبھی ذہن میں ایک لاوا بنا پھر ٹھکانے بدل کر مری آنکھ سے ٹوٹ کر گر رہا ہے

مزید پڑھیے
صفحہ 578 سے 6203