کہیں سے شمع اٹھا لاؤ
ہزار لاکھ امیدوں کا ہم سفر سورج
یہاں سے دور بہت دور تھک کے بیٹھ گیا
کبھی وہ دل کے دریچے سے جھانکتا تھا کبھی
الجھتا رہتا تھا پلکوں کی چھاؤں سے اکثر
مری رگوں میں رواں تھا کبھی لہو کی طرح
کتاب عمر کا چالیسواں ورق چھو کر
الجھ گیا ہوں کوئی راستہ نہیں ملتا
یہاں سے دور بہت دور تک اندھیرا ہے
ادھوری راہ پہ سورج نے ساتھ چھوڑ دیا
کہیں سے شمع اٹھا لاؤ تاکہ دیکھ سکوں
مری حیات کا اگلا ورق بھی ہے کہ نہیں
کہیں سے شمع اٹھا لاؤ
ورنہ یہ سانسیں
مری حیات کے اوراق منتشر کرکے
بگاڑ دیں گی مرے درد کی کہانی کو
یہ وہ کہانی ہے جس کو نہ کوئی جان سکا
خود اپنے آپ کو پڑھنے کی آرزو ہی رہی
کوئی پڑھے نہ پڑھے خود ہی پڑھ کے دیکھ تو لوں
خود اپنے درد پہ روؤں ہنسوں کہ چپ ہی رہوں
یہ میری آخری خواہش کا آخری لمحہ
گزارنا ہے جسے ہر طرح سے اپنے لیے
یہی ہے ساعت بیدار
اس اندھیرے میں
کہیں سے شمع اٹھا لاؤ روشنی کے لئے