دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہرگز
دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہرگز ڈھونڈا تو کہیں پتا نہ پایا ہرگز کھونا پانا ہے سب فضولی اپنی یہ خبط نہ ہو مجھے خدایا ہرگز
دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہرگز ڈھونڈا تو کہیں پتا نہ پایا ہرگز کھونا پانا ہے سب فضولی اپنی یہ خبط نہ ہو مجھے خدایا ہرگز
ڈھونڈا کرے کوئی لاکھ کیا ملتا ہے دن کا کہیں رات کو پتا ملتا ہے جب تک کہ ہے بندگی خدائی کا حجاب بندہ کو بھلا کہیں خدا ملتا ہے
اسراف سے احتراز اگر فرماتے کیوں گردش ایام کی سیلی کھاتے انگشت نما تھی کج کلاہی جن کی وہ پھرتے ہیں آج جوتیاں چٹخاتے
جس درجہ ہو مشکلات کی طغیانی ہو اہل ہم کو اور بھی آسانی تیراک اپنا ہنر دکھاتا ہے خوب ہوتا ہے جب اس کے سر سے اونچا پانی
کہتے ہیں سبھی مسدام اللہ اللہ کرتے ہیں برائے نام اللہ اللہ یہ نام و نشان بھی نقاب رخ ہیں کیا خوب ہے انتظام اللہ اللہ
تیزی نہیں منجملۂ اوصاف کمال کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی ہاں راہ طلب میں شرط ہے استقلال
تاریک ہے رات اور دنیا ذخار طوفان بپا ہے اور کشتی بے کار گھبرائیو مت کہ ہے مددگار خدا ہمت ہے تو جا لگاؤ کھیوا اس پار
حقا کہ بلند ہے مقام اکبر توقیع سخن ہے اب بہ نام اکبر دیواں ہے لطائف و حکم سے معمور اکبرؔ کا کلام ہے کلام اکبر
افسردگی اور گرم جوشی بھی غلط گم گشتگی اور خود فروشی بھی غلط کچھ کہئے اگر تو گفتگو ہے بے جا چپ رہئے اگر تو ہے خموشی بھی غلط
چوپائے کی طرح تو کتابوں سے نہ لد حاصل ہے کتاب کا فقط علم و خرد کیڑوں نے ہزارہا کتابیں کھا لیں پائی نہ مگر کبھی فضیلت کی سند