بے نغمہ ہے اے جوشؔ ہمارا دربار
بے نغمہ ہے اے جوشؔ ہمارا دربار اب عالم ارواح میں ٹک آؤ بھی یار یہ کون بلا رہا ہے ''ہم ہیں اے جوش'' آزادؔ شررؔ رفیعؔ شاعرؔ ابرارؔ
بے نغمہ ہے اے جوشؔ ہمارا دربار اب عالم ارواح میں ٹک آؤ بھی یار یہ کون بلا رہا ہے ''ہم ہیں اے جوش'' آزادؔ شررؔ رفیعؔ شاعرؔ ابرارؔ
باقی نہیں ایک شعور رکھنے والا صہبائے کہن سال کا چکھنے والا کیا اپنے معانی کا میں رونا روؤں الفاظ نہیں کوئی پرکھنے والا
خود سے نہ اداس ہوں نہ مسرور ہوں میں بالذات نہ روشن ہوں نہ بے نور ہوں میں مختار سے مختار ہے مختار ہے تو مجبور ہوں مجبور ہوں مجبور ہوں میں
آزادئ فکر و درس حکمت ہے گناہ دانا کے لیے نہیں کوئی جائے پناہ اس اژدر تہذیب کے فرزند رشید یہ مذہب و قانون عیاذاً باللہ
ساحل، شبنم، نسیم ،میدان طیور یہ رنگ یہ جھٹ پٹا یہ خنکی یہ سرور یہ رقص حیات اور دریا کے ادھر ٹوٹی ہوئی قبروں پہ ستاروں کا یہ نور
اس دہر میں اک نفس کا دھوکا ہوں میں بجلی ہوں بگولا ہوں چھلاوا ہوں میں گھبرائی ہوئی ہے جوش روح تحقیق ہر ذرہ پکارتا ہے دنیا ہوں میں
غنچے تیری زندگی پے دل ہلتا ہے صرف ایک تبسم کے لیے کھلتا ہے غنچے نے کہا کہ اس چمن میں بابا یے ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے
پر ہول شکم عریض سینے والو خوں قوم تہی دست کا پینے والو تم اہل خرد سے کیوں نہ رکھوگے عناد خیرات پر احمقوں کی جینے والو
کل رات گئے عین طرب کے ہنگام سایہ وہ پڑا پشت سے آ کر سر جام تم کون ہو ''جبریل ہوں'' کیوں آئے ہو سرکار فلک کے نام کوئی پیغام
ممنوع شجر سے لطف پیہم لینے عصیاں کی گھنی چھاؤں میں پھر دم لینے مشہور کرو کاشمر آ پہنچا جوشؔ اللہ سے انتقام آدم لینے