یہ بزم گیر عمل ہے بے نغمہ و صوت
یہ بزم گیر عمل ہے بے نغمہ و صوت اس دائرے میں ولولۂ روح ہے فوت یک رنگی و یکسانیٔ اسلوب حیات دراصل ہے ایک سانس لیتی ہوئی موت
یہ بزم گیر عمل ہے بے نغمہ و صوت اس دائرے میں ولولۂ روح ہے فوت یک رنگی و یکسانیٔ اسلوب حیات دراصل ہے ایک سانس لیتی ہوئی موت
اے زاہد حق شناس والے عالم دیں حضرت کا مقام ہے فقط خلد بریں انسان ابھی چل رہا ہے گھٹنوں گھٹنوں اور آپ کو ہے قرب قیامت کا یقیں
دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے اسلوب سخن نیا نکالا ہم نے ذرات کو چھوڑ کر حریفوں کے لیے خورشید پہ بڑھ کے ہاتھ ڈالا ہم نے
ہر علم و یقیں ہے اک گماں اے ساقی ہر آن ہے اک خواب گراں اے ساقی اپنے کو کہیں رکھ کے میں بھولا ہوں ضرور لیکن یہ نہیں یاد کہاں اے ساقی
قانون نہیں کوئی فطرت کے سوا دنیا نہیں کچھ نمود طاقت کے سوا قوت حاصل کر اور مولیٰ بن جا معبود نہیں ہے کوئی قوت کے سوا
انسان کی تباہیوں سے کیوں ہلے دلگیر کاکل میں بدل جائے گی کل یہ زنجیر اس آدم فرسودہ کے زیر تخریب اک آدم نو کی ہو رہی ہے تعمیر
میرے کمرے کی چھت پہ ہے اس بت کا مکان جلوے کا نہیں پھر بھی کوئی امکان گویا اے جوشؔ میں ہوں ایسا مزدور جو بھوک میں ہو سر پہ اٹھائے ہوئے خوان
اوروں کو بتاؤں کیا میں گھاتیں اپنی خود کو بھی سناتا نہیں باتیں اپنی ہر ساعت خوش ہے حال مسروقہ وقت قدرت سے چھپا رہا ہوں راتیں اپنی
جینا ہے تو جینے کی محبت میں مرو غار ہستی کو نیست ہو ہو کے مرو نوع انسان کا درد اگر ہے دل میں اپنے سے بلند تر کی تخلیق کرو
جانے والے قمر کو روکے کوئی ثبت کے پیک سفر کو روکے کوئی تھک کر مرے زانو پہ وہ سویا ہے ابھی روکے روکے سحر کو روکے کوئی