جاہل بھی ہیں سقراط سند زاد بھی ہیں
جاہل بھی ہیں سقراط سند زاد بھی ہیں صید تا فتراک بھی صیاد بھی ہیں باہر سے پیمبر نظر آتے ہیں مگر اندر سے یہ بوجہل کے ہم زاد بھی ہیں
جاہل بھی ہیں سقراط سند زاد بھی ہیں صید تا فتراک بھی صیاد بھی ہیں باہر سے پیمبر نظر آتے ہیں مگر اندر سے یہ بوجہل کے ہم زاد بھی ہیں
ہر لحظہ ادھر اور ادھر دیکھ لیا ہر خطرے کو تا حد نظر دیکھ لیا سو پردوں میں چھپ چھپ کے کئے ہم نے گناہ اک دیکھنے والے نے مگر دیکھ لیا
کہتے ہیں رضاؔ کبھی کہیں پہنچا ہے بیٹھا ہے جہاں تھک کے وہیں پہنچا ہے لو ڈوب گیا کل وہ بھنور سے لڑتے کیا اب بھی وہ اس پار نہیں پہنچا ہے
صدیوں میں ہوس خانۂ ہستی میں رہا سونے میں تلا چاندی کے دریا میں بہا لیکن نہ زر و مال ہوئے دامن گیر کیا صبر نے توقیر بڑھائی آہا
میں کون یقین بد گمانی ہوں میں اگیانی ہوں ہرگز نہیں گیانی ہوں میں باطل ہوں کبھی نہیں میں سچائی ہوں فانی ہوں غلط ہے غیر فانی ہوں میں
فانی نہ کہو ہوتا ہے کم اس کا وقار انسان کا ہوتا ہے دوامی کردار مایوس ہو کیوں وقت کی ظلمت سے کوئی ہر رات سے پیدا ہیں سحر کے آثار
لے ڈوبے گی خاموشی کوئی دم ہنس بول اک ایک کر کے وجود کی گرہیں کھول آزاد فضاؤں میں بھی کر لے پرواز اے زہد عبودیت کے بندے پر تول
بندے کیا چاہتا ہے دام و دینار یا دولت یا پندۂ زلف و رخسار معبود نہیں نہیں کوئی چیز نہیں الا آگاہیٔ رموز و اسرار
اے مرد خدا نفس کو اپنے پہچان انسان یقین ہے اور اللہ گمان میری بیعت کے واسطے ہاتھ بڑھا پڑھ کلمۂ لاالہ الا انسان
ناگن بن کر مجھے نہ ڈسنا بادل باراں کی کسوٹی پہ نہ کسنا بادل وہ پہلے پہل جدا ہوئے ہیں مجھ سے اس دیس میں اب کے نہ برسنا بادل