سیاسی اصطبل
اب سیاسی اصطبل کا یہ نیا دستور ہے اک گدھا آگے بڑھے گا دوسرا رہ جائے گا جو گدھے کمزور ہوں گے کر دیے جائیں گے قتل جس گدھے میں جان ہوگی وہ گدھا رہ جائے گا
اب سیاسی اصطبل کا یہ نیا دستور ہے اک گدھا آگے بڑھے گا دوسرا رہ جائے گا جو گدھے کمزور ہوں گے کر دیے جائیں گے قتل جس گدھے میں جان ہوگی وہ گدھا رہ جائے گا
گزر جا معاشی مسائل سے آگے ترے واسطے آسماں اور بھی ہیں قناعت نہ کر صرف دو بیویوں پر شریعت میں دو بیویاں اور بھی ہیں
تم گناہوں سے ڈر کے جیتے ہو ہم انہیں ساتھ لے کے چلتے ہیں یہ وہ رہبر ہیں جن کے ہاتھوں سے جنتوں کے چراغ جلتے ہیں
تمہاری یاد کے اجڑے ہوئے، اداس چمن نکھر رہے ہیں، مرے درد کی پھوار کے ساتھ میں سوچتا ہوں، کبھی تم بھی لوٹ آؤ گے تمہارا بھی تو تعلق ہے، کچھ بہار کے ساتھ
درد کا جام لے کے جیتے ہیں ضبط سے کام لے کے جیتے ہیں لوگ جیتے ہیں سو بہانوں سے ہم ترا نام لے کے جیتے ہیں
دل جلوں کو ستانے آئے ہیں غم زدوں کو رلانے آئے ہیں اف! یہ بے درد شام کے سائے حسرتوں کو جگانے آئے ہیں
کاوش صبح و شام باقی ہے ایک درد مدام باقی ہے سجدے کرتا ہوں اٹھ کے پچھلے پہر عشق کا احترام باقی ہے
بڑی شفیق، بڑی غم شناس لگتی ہیں تمہارے شہر کی گلیاں اداس لگتی ہیں وہ درد مند نگاہیں، جو چھن گئیں مجھ سے کبھی کبھی تو مجھے آس پاس لگتی ہیں
سخت جاں بھی ہیں اور نازک بھی درد کے باوجود جیتے ہیں زندگی زہر ہے، مگر ہم لوگ چھان کر گیسوؤں میں پیتے ہیں
زندگی کی حسین شہزادی آرزو کے ستم سے ڈرتی ہے پھر بھی ہر روز اپنے خاکوں میں آرزوؤں کے رنگ بھرتی ہے