دروغ گوئی
اب تک ہے یاد مجھ کو وہ خاتون دل نشیں ایسی دروغ گوئی تو اس کے ہی بس کی تھی سترہ برس کے بعد ملاقات جب ہوئی سترہ برس کے بعد بھی سترہ برس کی تھی
اب تک ہے یاد مجھ کو وہ خاتون دل نشیں ایسی دروغ گوئی تو اس کے ہی بس کی تھی سترہ برس کے بعد ملاقات جب ہوئی سترہ برس کے بعد بھی سترہ برس کی تھی
گرمی ہے اس قدر کہ میامی کے بیچ پر اس کو خیال نیکر و بنیان ہی نہیں میں نے کہا کہ اپنا گریباں تو جھانک لے کہنے لگی کہ میرا گریبان ہی نہیں
کسی بھولوؔ کو جب چاہا یہاں گاماؔ بنا ڈالا کسی پتلون کو کھینچا تو پاجامہ بنا ڈالا جو شاید میٹرک کر کے سمندر پار آئے تھے انہیں یاروں نے امریکہ میں علامہ بنا ڈالا
ہمارے ملک میں پھر خلفشار اللہ توبہ کہیں اپنائیت ہے اور کہیں پر غیریت ہے دھماکے میں کہیں چالیس انساں چل بسے ہیں حکومت کہہ رہی ہے ملک میں سب خیریت ہے
نام پنکھے کے سسکنے کا ہوا رکھا ہے گرم موسم نے بہت ظلم روا رکھا ہے اور اوپر سے ترے شعلۂ رخسار کی ہیٹ ایسا لگتا ہے کہ چولھے پہ توا رکھا ہے
پردیس میں اپنی ہی زمیں کا نہیں رکھا ہم جس پہ اکڑتے تھے وہیں کا نہیں رکھا اندر کے رہے اور نہ باہر کے رہے ہم ڈالر کی محبت نے کہیں کا نہیں رکھا
میں ایک بھی مکان کا مالک نہ بن سکا بارش کی زد میں ہوں کبھی لو کے اثر میں ہوں اتنی نہ تیز چل کہ اکھڑ جائیں بام و در اے صرصر ہوا میں کرائے کے گھر میں ہوں
ولیمہ کر لیا تھا دوسروں کا مال کھا کے سو اب رشوت سے بچوں کی مسلمانی کروں گا گزشتہ سال تو حج کر لیا تھا سود لے کر کریڈٹ کارڈ سے اس سال قربانی کروں گا
وہ لڑکیاں ہوں خاص کہ لڑکے ہوں عام سے سارے ہی چیٹ روم میں بیٹھے ہیں شام سے ہوتا تھا پہلے عشق لفافے کی معرفت اب کام چل رہا ہے فقط ''ڈاٹ کام'' سے
مسئلہ پانی کا ہے چھ سات دن سے برقرار آپ پی کر دیکھ لیجے یا نہا کر دیکھ لیں رات دن نل سے ہوا آتی ہے پانی کی جگہ آپ اس ٹونٹی میں غبارہ لگا کر دیکھ لیں