شاعری

میری تھوڑی آنکھ لگی تو جانے کیا کیا باندھ لیا

میری تھوڑی آنکھ لگی تو جانے کیا کیا باندھ لیا جادوگر نے اک رومال میں پورا صحرا باندھ لیا آخر میں خیرات بٹی تو سارے گتھم گتھا تھے میں نے پیچھے بیٹھے بیٹھے جو دل چاہا باندھ لیا یہ جو یار میسر ہے ناں سارا میرا اپنا نئیں ساون کا یہ مطلب نئیں کہ جو کچھ برسا باندھ لیا منظر ہی کچھ ...

مزید پڑھیے

میرا کتنا خیال کرتے ہو

میرا کتنا خیال کرتے ہو سانس لینا محال کرتے ہو ہو وہاں بھی جہاں نہیں موجود تم یہ کیسا کمال کرتے ہو عشق میں ہجر و وصل بے معنی کس لیے تم ملال کرتے ہو جانتے ہو کہ ہم تمہارے ہیں پھر بھی دل پائمال کرتے ہو ہم نے دیکھا ہے اک زمانے کو زندگی کیوں وبال کرتے ہو میرے اخلاص کا کرشمہ ہے جسم ...

مزید پڑھیے

اس دور کے آقاؤں کی عادت نہیں بدلی

اس دور کے آقاؤں کی عادت نہیں بدلی ہم جیسے فقیروں کی بھی فطرت نہیں بدلی مسجد بھی گئے اور شوالہ بھی گئے ہم اس دل نے مگر تیری عبادت نہیں بدلی تدبیر سے تقدیر نے پائی ہے بلندی ہاتھوں کی لکیروں سے تو قسمت نہیں بدلی صدیوں سے اسے دیکھ رہا ہے یہ زمانہ کیا بات ہے آئینے کی صورت نہیں ...

مزید پڑھیے

میسر آ گئی ہے آگہی کیا

میسر آ گئی ہے آگہی کیا رکے ہیں لوگ منزل آ گئی کیا تمہارے ساتھ ہے سارا زمانہ ہماری دوستی کیا دشمنی کیا مروت جب دلوں سے کھو چکی ہو قرابت کیا محلہ کیا گلی کیا طبیعت درد کی جب ہم سفر ہو پڑاؤ کیا سفر کیا خوش دلی کیا میں دل کو کتنی وسعت دے سکوں گا خفا ہو جائیں گے مجھ سے سبھی کیا یہ ...

مزید پڑھیے

رخ حیات نکھرتا ہے حادثات کے بعد

رخ حیات نکھرتا ہے حادثات کے بعد خوشی کی صبح بھی آئے گی غم کی رات کے بعد بس اس خطا پہ ہیں میرے خلاف سارے لوگ مرا یقین خدا پر ہے اپنی ذات کے بعد مری طرف نگہ مہر یوں ہی رہنے دے ستم نہ کر میری ہستی پہ التفات کے بعد ہزار طرح کے الزام دیں گے لوگ تجھے پڑیں گے سب ترے چہرے کو تیری بات کے ...

مزید پڑھیے

موسم ہرا بھرا ہے یہ منظر بھی دیکھ لے

موسم ہرا بھرا ہے یہ منظر بھی دیکھ لے کچھ دیر تازگی میں سنور کر بھی دیکھ لے سچ بات کہنے کے لئے اپنی زباں تو کھول پھر کس طرف سے آتے ہیں پتھر بھی دیکھ لے مانا کہ تشنگی کسی صحرا کی دین ہے فیاض کس قدر ہے سمندر بھی دیکھ لے تو نے بلا کی دھوپ میں کاٹی تمام عمر اب سرد شب کی اوڑھ کے چادر ...

مزید پڑھیے

بات کیا ہے یہ بتائیں تو سہی

بات کیا ہے یہ بتائیں تو سہی گفتگو آگے بڑھائیں تو سہی جان جائیں گے کھرا کھوٹا ہے کیا آپ مجھ کو آزمائیں تو سہی انگلیاں اٹھیں گی چاروں آپ پر آپ اک انگلی اٹھائیں تو سہی بندہ پرور ناامیدی کفر ہے اک دیا پھر سے جلائیں تو سہی چاند تارے منتظر ہیں آپ کے آسماں تک آپ جائیں تو سہی وصل کر ...

مزید پڑھیے

آپ دانستہ جو کترا کے گزر جاتے ہیں

آپ دانستہ جو کترا کے گزر جاتے ہیں میرے احساس میں سو درد اتر جاتے ہیں پاس آ کر بھی اگر پاس نہ آئے کوئی ہم شب وصل کی تنہائی میں مر جاتے ہیں کیا عجب دور پر آشوب ہے جس میں اے دوست لوگ دستار بچاتے ہیں تو سر جاتے ہیں جب پسینے کا خریدار نہ ہو تب مزدور شام کو نظریں جھکائے ہوئے گھر جاتے ...

مزید پڑھیے

روشنی بن کر بکھرنے کے لیے

روشنی بن کر بکھرنے کے لیے زندگی ہے عشق کرنے کے لیے انگلیوں کو ہم قلم کرتے رہے چاہتوں میں رنگ بھرنے کے لیے توڑ ڈالا ہے خود اپنے آپ کو ایک گھر تعمیر کرنے کے لیے آئینے میں روبرو تھا اجنبی آج جب سوچا سنورنے کے لیے میں وظیفہ پڑھ رہی ہوں رات دن آپ کے دل میں اترنے کے لیے جانتی ہوں اک ...

مزید پڑھیے

عشق نے میرے جسے القاب کا دفتر دیا

عشق نے میرے جسے القاب کا دفتر دیا اس نے سونے کو مجھے کانٹوں بھرا بستر دیا میری تحریروں سے خائف ہو کے پھر اغیار نے رنگ کوئی اور افسانوں میں میرے بھر دیا تیرے آنگن سے اترتی چاندنی نے اب تلک خوف بخشا سسکیاں دیں اور مجھ کو ڈر دیا جا تری جھولی میں میں نے اپنی خوشیاں ڈال دیں جا ترے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1138 سے 4657