اس دور کے آقاؤں کی عادت نہیں بدلی
اس دور کے آقاؤں کی عادت نہیں بدلی
ہم جیسے فقیروں کی بھی فطرت نہیں بدلی
مسجد بھی گئے اور شوالہ بھی گئے ہم
اس دل نے مگر تیری عبادت نہیں بدلی
تدبیر سے تقدیر نے پائی ہے بلندی
ہاتھوں کی لکیروں سے تو قسمت نہیں بدلی
صدیوں سے اسے دیکھ رہا ہے یہ زمانہ
کیا بات ہے آئینے کی صورت نہیں بدلی
میلے میں کہیں کھو گئے ہیں پھول سے بچے
لیکن ابھی ماں باپ کی رنگت نہیں بدلی