موسم ہرا بھرا ہے یہ منظر بھی دیکھ لے
موسم ہرا بھرا ہے یہ منظر بھی دیکھ لے
کچھ دیر تازگی میں سنور کر بھی دیکھ لے
سچ بات کہنے کے لئے اپنی زباں تو کھول
پھر کس طرف سے آتے ہیں پتھر بھی دیکھ لے
مانا کہ تشنگی کسی صحرا کی دین ہے
فیاض کس قدر ہے سمندر بھی دیکھ لے
تو نے بلا کی دھوپ میں کاٹی تمام عمر
اب سرد شب کی اوڑھ کے چادر بھی دیکھ لے
دنیا کو تو نے دیکھا ہے کھڑکی سے جھانک کر
اک روز اپنے گھر سے نکل کر بھی دیکھ لے
کانٹوں کا تاج سر پہ لئے کیوں صلیب پر
ہے آزمائشوں میں پیمبر بھی دیکھ لے
نام صباؔ ہتھیلی پہ اپنی کبھی سجا
تاکہ زمانہ اس کا مقدر بھی دیکھ لے