آپ دانستہ جو کترا کے گزر جاتے ہیں
آپ دانستہ جو کترا کے گزر جاتے ہیں
میرے احساس میں سو درد اتر جاتے ہیں
پاس آ کر بھی اگر پاس نہ آئے کوئی
ہم شب وصل کی تنہائی میں مر جاتے ہیں
کیا عجب دور پر آشوب ہے جس میں اے دوست
لوگ دستار بچاتے ہیں تو سر جاتے ہیں
جب پسینے کا خریدار نہ ہو تب مزدور
شام کو نظریں جھکائے ہوئے گھر جاتے ہیں
زخمی لفظوں پہ بھی ہنس ہنس کے اگر داد ملے
ہم سے شاعر تو اسی وقت ہی مر جاتے ہیں
اپنے محبوب سے ملنے کے لئے روز سبینؔ
تم کو معلوم ہے ہم چاند نگر جاتے ہیں