میسر آ گئی ہے آگہی کیا
میسر آ گئی ہے آگہی کیا
رکے ہیں لوگ منزل آ گئی کیا
تمہارے ساتھ ہے سارا زمانہ
ہماری دوستی کیا دشمنی کیا
مروت جب دلوں سے کھو چکی ہو
قرابت کیا محلہ کیا گلی کیا
طبیعت درد کی جب ہم سفر ہو
پڑاؤ کیا سفر کیا خوش دلی کیا
میں دل کو کتنی وسعت دے سکوں گا
خفا ہو جائیں گے مجھ سے سبھی کیا
یہ سب احساس کی باتیں ہیں یارو
ستارے چاند سورج روشنی کیا
یہ مدت بعد کیسی ہچکیاں ہیں
صباؔ کی یاد ان کو آ گئی کیا