دل کو زر سے نہ تولیے صاحب
دل کو زر سے نہ تولیے صاحب ہم فقیروں سے بولئے صاحب اپنا جیسا سبھی کو پائیں گے دل کا دروازہ کھولیے صاحب اب تو بدلیں کہ دن بدلتے ہیں عہد ماضی کو رو لئے صاحب ان کے دست حنائی کی خاطر ہاتھ خوں میں ڈبو لئے صاحب جو بھی ہنس کے ملا محبت سے دل سے اس کے ہی ہو لئے صاحب ان گلابوں میں رنگ ...