کسی سے جب نہ اٹھا تو اٹھا بار گراں ہم سے
کسی سے جب نہ اٹھا تو اٹھا بار گراں ہم سے
ملا سکتے نہیں اب آنکھ ساتوں آسماں ہم سے
ہنسا کر ایک دو دن عمر بھر آخر رلاتا ہے
عجب اٹکھیلیاں کرتا ہے دور آسماں ہم سے
ہمارا جب یہ ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے
تو آخر کیوں خفا بیٹھی ہے مرگ ناگہاں ہم سے
ابھی پیش نظر تعمیر فردا کی ہیں تجویزیں
ہزاروں گام بازی لے گئی عمر رواں ہم سے
عفاک اللہ اے دور فلک ہم منتظر ہی تھے
کہ کب آنکھیں چراتے ہیں ہمارے مہرباں ہم سے
ہے جب دشوار اک لاہور ہی کو چھوڑنا صائبؔ
تو پھر اس حال میں چھوٹے گا کیا ہندوستاں ہم سے