دل میں چراغ عشق نہ جو ضو فشاں رہے
دل میں چراغ عشق نہ جو ضو فشاں رہے
رعنائی خیال نہ حسن بیاں رہے
شامل ہے اس میں میری تمنا کا خون بھی
رنگیں تری ادا کی نہ کیوں داستاں رہے
دل مٹ گیا کشاکش امید و بیم میں
اب مہرباں ہو کوئی کہ نا مہرباں رہے
اس رشک کا برا ہو جو دیکھا انہیں کبھی
پہروں ہم اپنے آپ سے بھی بد گماں رہے
محرومیٔ دوام نے بخشا ہمیں سکوں
کنج قفس میں پہنچے تو ہم شادماں رہے
پوچھو یہ اپنے جلوۂ محجوب سے ذرا
ہم کیوں فریب خوردۂ وہم و گماں رہے
بزم مشاعرہ میں سنائیں کسے غزل
اب قدرداں زمانے میں صائبؔ کہاں رہے