دم صبح پی لی سر شام پی لی
دم صبح پی لی سر شام پی لی
اگر مل گئی ایک دو جام پی لی
نہ آغاز سوچا نہ انجام پی لی
رکھا ہم نے پینے سے بس کام پی لی
میں اے شیخ انسان ہی تو ہوں آخر
گھٹاؤں نے پھیلا دئے دام پی لی
زمانے کی بے رحم گردش کے ہاتھوں
نہ پایا جہاں میں جو آرام پی لی
کبھی ہم نے ساغر پہ ساغر لنڈھائے
کبھی ہم نے درد تہ جام پی لی
تری رحمتوں کے بھروسے پہ ہم نے
کئی بار لے کر ترا نام پی لی
مئے لالہ گوں کے پیالے میں ہم نے
جو دیکھا رخ ماہ گلفام پی لی
خدا سے نہ جھجکے تو دنیا کا ڈر کیا
جو پینے پہ آئے سر عام پی لی
کسی شوخ کی مست آنکھوں نے صائبؔ
دیا بادہ نوشی کا پیغام پی لی