لطف پیمان بار بار کہاں
لطف پیمان بار بار کہاں
لذت سوز انتظار کہاں
کیا ہوئیں بے قراریاں دل کی
وہ تمنائے وصل یار کہاں
وہ تقاضائے شوق دید کجا
روح کو اب وہ اضطرار کہاں
جوش وحشت کے وہ مزے نہ رہے
وہ گریبان تار تار کہاں
مے کشی کی وہ بات جاتی رہی
اب وہ محفل وہ مےگسار کہاں
موت آ جائے تو غنیمت ہے
ان کے آنے کا اعتبار کہاں
آ کہ دو چار دن کی زندگی ہے
کوئی آتا ہے بار بار کہاں
میں تو لاہور سے چلا جاؤں
جائے گی فکر روزگار کہاں
کس کو صائبؔ فراغ حاصل ہے
میں کہاں موسم بہار کہاں