کس کی صدا پہ کان لگائے ہوئے ہوں میں

کس کی صدا پہ کان لگائے ہوئے ہوں میں
زانو پہ اپنے سر کو جھکائے ہوئے ہوں میں


وہ دن گئے کہ یاد تھی آٹھوں پہر تری
اب اپنے آپ کو بھی بھلائے ہوئے ہوں میں


رنگیں دکھائی دیتا ہے سارا جہاں مجھے
آنکھوں میں ان کے جلوے بسائے ہوئے ہوں میں


مانع ہے تیرے آنے میں اے مست ناز کیا
ملنے کی کب سے آس لگائے ہوئے ہوں میں


صائبؔ فراق یاد میں ہو موت ہی نصیب
ہر وقت کیسا حال بنائے ہوئے ہوں میں