ادبی لطائف

جوش کی گھڑی مجاز کا گھڑا

جوش ملیح آبادی بالعموم شراب پیتے وقت ٹائم پیس سامنے رکھ لیتے اور ہر پندرہ منٹ کے بعد نیا پیگ بناتے تھے لیکن یہ پابندی اکثر تیسرے چوتھے پیگ کے بعد ’’نذر جام‘‘ ہوجاتی تھی ۔ ایک صحبت میں انہوں نے پہلا پیگ حلق میں انڈیلنے کے بعداپنے ٹائم پیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجاز سے ...

مزید پڑھیے

ہندوستان کے آم ،روس کے عوام

آموں کی ایک دعوت میں آم چوستے چوستے سردار جعفری نے مجاز سے کہا’’کیسے میٹھے آم ہیں مجاز! روس میں اور ہر چیز مل جاتی ہے لیکن ایسے میٹھے آم وہاں کہاں۔‘‘ ’’روس میں آموں کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ مجاز نے بلاتا مل جواب دیا۔’’وہاں عوام جو ہیں ۔‘‘

مزید پڑھیے

شراب سے توبہ

جگر مرادآبادی نے نہایت ہمدردانہ انداز میں شراب کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے مجاز سے کہا۔’’مجازشراب واقعی خانہ خراب ہے ۔خم کے خم لنڈھانے کے بعد انجام کار مجھے توبہ ہی کرنی پڑی۔ میں تو دعا کرتا ہوں کہ خدا تمہیں توفیق دے کہ تم بھی میری طرح توبہ کرسکو۔‘‘ مجازیہ سن کر نہایت معصومیت ...

مزید پڑھیے

مجاز کے کباب ، فراق کا گوشت

مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہورہی تھی ۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا: ’’مجاز تم نے کباب بیچنے کیوں بند کردیئے ؟‘‘ ’’آپ کے یہاں سے گوشت آنا جو بند ہوگیا ۔‘‘ مجازنے اپنی سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے فوراً جواب دیا ۔

مزید پڑھیے

کار میں عرش اور معلی

لکھنؤکے کسی مشاعرے میں شریک ہونے کے لئے جب جوش ملیح آبادی بذریعۂ کار وہاں پہنچے تو مشاعرہ گاہ کے گیٹ ہی پر مجازخیر مقدم کے لئے موجود تھے۔ جوش صاحب کار سے نکلے تو مجاز نے نہایت نیاز مندی سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد عرش ملسیانی بھی اسی کار سے باہر آئے تو مجاز بولے۔’’آ ہاہاہا ۔عرش ...

مزید پڑھیے

ادیبوں کی پذیرائی

1949ء کا ذکر ہے ۔جب حکومت ترقی پسند ادیبوں کو یکے بعد دیگر ے سرکاری مہمان بنارہی تھی۔ علی جواد زیدی نے مجازسے فرمایا۔ ’’ہماری حکومت ادیبوں سے بڑا تعاون کررہی ہے ۔ ان کے لئے ایک اچھی سی کالونی بنانے کی سوچ رہی ہے ۔‘‘ ’’سنٹرل جیل میں یاڈسٹرکٹ جیل میں ۔‘‘ مجازنے جملہ پورا کیا ۔

مزید پڑھیے

احمقوں کی آمد

مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تےح کہ ایک صاحب جو ان کے روشناس نہیں تھے ، ان کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے ۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سری آواز میں گنگنانا شروع کیا ۔ احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں مجاز نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ڈھونڈنے کی نوبت ہی ...

مزید پڑھیے

مجاز، شاعر نہیں لطیفہ باز !

ایک بار کسی ادیب نے مجاز سے کہا: ’’مجاز صاحب!ادھر آپ نے شعروں سے زیادہ لطیفے کہنے شروع کردیئے ہیں ۔‘‘ ’’تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ؟‘‘ اور وہ ادیب مجاز کی اس بات پر واقعی گھبراتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب کسی مشاعرے میں آپ شعر سنانے کے لئے کھڑے ہوں گے تو ...

مزید پڑھیے

خالص’ زبان‘ کے شعر

ایک بار دہلی میں ایک مشاعرہ ہورہا تھا مجاز لکھنوی بھی موجود تھے ۔ دہلی کے ایک معمر شاعر جب کلام سنانے لگے تو کہا۔’’حضرات میں دہلی کے قلعۂ معلیٰ کی زبان میں شعر عرض کرتا ہوں۔‘‘ ان کے دانت مصنوعی تھے ۔ چنانچہ ایک دو شعر سنانے کے بعد جب ذرا جوش میں آکر پڑھنا چا ہا تو مصنوعی دانت ...

مزید پڑھیے

شاعر اعظم کا استقبال

جوش ملیح آبادی سفر پر جارہے تھے ۔ اسٹیشن پہنچے تو ان کی گاڑی چھوٹنے ہی والی تھی ۔مجاز اور دوسرے شعراء انہیں خدا حافظ کہنے کے لئے پہلے سے پلیٹ فارم پر ریلوے بک اسٹال کے سامنے کھڑے ہوئے تھے کہ اچانک جوش صاحب تیزی سے مسکراتے ہوئے گزرگئے ۔ اس پر ایک شاعر نے کہا: ’’اتنا عظیم شاعر اگر ...

مزید پڑھیے
صفحہ 24 سے 29