ظفر زیدی کی غزل

    اس طرح ٹوٹ کر گرا پانی

    اس طرح ٹوٹ کر گرا پانی بادلوں میں نہیں بچا پانی گھر بنایا تو تھا بلندی پر پھر بھی آنگن میں بھر گیا پانی لڑ جھگڑ کر کبھی تو آگ بنا اور کبھی برف بن گیا گیا پانی مجھ کو اپنے ہی شہر کا یارو راس آیا نہیں ہوا پانی لوگ دیوانہ وار ٹوٹ پڑے مدتوں بعد جب ملا پانی ہاتھ تھامے ہوئے ہواؤں ...

    مزید پڑھیے

    جو تاب دید ملی بھی تو کیا دکھائی دیا

    جو تاب دید ملی بھی تو کیا دکھائی دیا دلوں کے بیچ عجب فاصلہ دکھائی دیا سحر کا نکلا ہوا میں جو شام کو لوٹا تو میرے گھر میں کوئی دوسرا دکھائی دیا خلا میں بس گئے سب لوگ ایک اک کر کے زمیں پہ جانے یہ کیا حادثہ دکھائی دیا اڑاتے جاتے ہو خود کو یہ کس طرف یارو سفر میں کیا کوئی رستہ نیا ...

    مزید پڑھیے

    بعد اس کے میرے گھر میں اور کیا رہ جائے گا

    بعد اس کے میرے گھر میں اور کیا رہ جائے گا بس کسی کے نام کا پتھر لگا رہ جائے گا کان بھر جائیں گے میرے خلوتوں کے شور سے اس کی یادوں کا پیمبر بولتا رہ جائے گا قید کر لے گا کوئی بچہ پروں کو کاٹ کر آسماں کی سمت طوطا دیکھتا رہ جائے گا قتل کر ڈالوں میں خود کو سوچتا ہوں بار بار میرے ...

    مزید پڑھیے

    حقیقتیں ہوں میسر تو خواب کیوں دیکھوں

    حقیقتیں ہوں میسر تو خواب کیوں دیکھوں میں تشنگی میں بھی سمت سراب کیوں دیکھوں تمام عمر گزرنی ہے جب اندھیروں میں تو ایک شب کے لیے ماہتاب کیوں دیکھوں مرے مکان کے دروازے بند رہنے دو میں اپنی آنکھ سے موسم خراب کیوں دیکھوں ورق ورق ترے دل کی کتاب روشن ہو تو چہرہ چہرہ نیا انتساب کیوں ...

    مزید پڑھیے

    دل و دماغ میں پھر مشورہ سا ہونے لگا

    دل و دماغ میں پھر مشورہ سا ہونے لگا میں اپنے آپ سے خود ہی لپٹ کے رونے لگا ستارے ٹوٹ کے گرنے لگے بچھونے پر میں لے کے چاند کو بانہوں میں جب بھی سونے لگا ادھر نظر نے تعارف کا ابر دکھلایا ادھر میں اپنی امیدوں کی فصل بونے لگا

    مزید پڑھیے

    نہ پھل نہ پھول نہ سایا شجر میں باقی ہے

    نہ پھل نہ پھول نہ سایا شجر میں باقی ہے مگر وہ سوکھا ہوا پیڑ گھر میں باقی ہے گرے مکان کو صدیاں گزر گئیں لیکن پر اب بھی خوف سا دیوار و در میں باقی ہے ابھی ہے دیر یہاں انقلاب آنے میں بڑا سکوت ابھی شور و شر میں باقی ہے تم آنا چاہو پلٹ کر تو آ بھی سکتے ہو ہر ایک نقش قدم رہ گزر میں باقی ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے شہر میں تھا بھی تو اک مسافر میں

    تمہارے شہر میں تھا بھی تو اک مسافر میں سو تھک کے بیٹھ گیا راستے میں آخر میں میں ہر لحاظ سے سیراب تھا خدا کی قسم یہ اور بات کہ پیاسا رہا بظاہر میں حروف ملتے ہی آواز ڈوب جاتی ہے جو چپ رہوں نہ بتاؤ تو کیا کروں پھر میں کسی بھی سمت بھٹکتا پھروں یمین و یسار تلاش راہ کروں بھی تو کس کی ...

    مزید پڑھیے

    اس سے پہلے کہ نیا پھر کوئی حملہ ہو جائے

    اس سے پہلے کہ نیا پھر کوئی حملہ ہو جائے جاگتے رہیے یہاں تک کہ سویرا ہو جائے خود کو ہر سمت سے پانی میں گھرا پاتا ہوں مجھ پہ اللہ کرے پیاس کا غلبہ ہو جائے جسم میں جسم چھپا لیجے کہ اس سے پہلے ٹھنڈ بڑھ جائے ہوا کا کوئی حملہ ہو جائے کب سے وہ سنگ لیے پھرتا ہے بے چین اداس آج اے کاش مرا ...

    مزید پڑھیے

    رات کو میں نے خواب عجب سا دیکھا ہے

    رات کو میں نے خواب عجب سا دیکھا ہے آگے آگ ہے روشن پیچھے دریا ہے کمرے کے اندر تو گھٹن ہے الجھن ہے باہر جھانک کے دیکھیں موسم کیسا ہے سارے رشتے توڑ کے ہم تو آئے تھے پھر یہ بیچ ہمارے جھگڑا کیسا ہے

    مزید پڑھیے

    اب اس کے ملنے کا کوئی گمان بھی تو نہیں

    اب اس کے ملنے کا کوئی گمان بھی تو نہیں کہ میرے شہر میں اس کا مکان بھی تو نہیں سلگنا دھوپ میں ہے بھیگنا ہے بارش میں کہ میرے سر پہ کوئی سائبان بھی تو نہیں انہوں نے پوچھا جو مجھ سے سبب خموشی کا کہوں گا کیا مرے منہ میں زبان بھی تو نہیں میں اپنے آپ سے رہتا ہوں بے تعلق سا نظر میں میری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3