حقیقتیں ہوں میسر تو خواب کیوں دیکھوں
حقیقتیں ہوں میسر تو خواب کیوں دیکھوں
میں تشنگی میں بھی سمت سراب کیوں دیکھوں
تمام عمر گزرنی ہے جب اندھیروں میں
تو ایک شب کے لیے ماہتاب کیوں دیکھوں
مرے مکان کے دروازے بند رہنے دو
میں اپنی آنکھ سے موسم خراب کیوں دیکھوں
ورق ورق ترے دل کی کتاب روشن ہو
تو چہرہ چہرہ نیا انتساب کیوں دیکھوں
جو ڈوبنا ہے تو سیل عذاب میں ڈوبوں
فسون موج و طلسم حباب کیوں دیکھوں