ظفر زیدی کی غزل

    ہر ایک دن تھا اسی کا ہر ایک رات اس کی

    ہر ایک دن تھا اسی کا ہر ایک رات اس کی مرے بدن میں رہی مدتوں حیات اس کی مری کتاب میں اس کا بیان سچ ہی تو ہے کہ میرے ذہن پہ چھائی ہوئی ہے ذات اس کی عجیب خواب دکھایا ہے رات آنکھوں نے کہ میرے نام سے منسوب ہے برات اس کی سسک سسک کے کوئی رو رہا تھا دل میں مرے کسی نے جیسے چرا لی ہو کائنات ...

    مزید پڑھیے

    فیصلہ کوئی بلندی پہ پہنچ کر ہوگا

    فیصلہ کوئی بلندی پہ پہنچ کر ہوگا جب مرے سامنے ہر شہر کا منظر ہوگا اور کچھ دیر اسے روند کے خوش ہو جاؤں آنکھ کھلتے ہی یہ سورج مرے سر پر ہوگا کشتیاں آج سے پہلے ہوئیں کتنی غرقاب اس کا اندازہ سمندر میں اتر کر ہوگا اک نجومی نے بتائی ہے بڑے کام کی بات کل کا دن آج سے ہر حال میں بہتر ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیاں کھولیں تو مجھ کو آج اندازہ ہوا

    کھڑکیاں کھولیں تو مجھ کو آج اندازہ ہوا میرا ہی سایہ تھا وہ دیوار سے لپٹا ہوا آج کی شب بھی پلٹ آئے بنا دستک دئے سو رہا تھا گھر میں کوئی رات کا جاگا ہوا اس گلی کے موڑ پہ بیٹھا ہوں کتنی دیر سے جس طرح کوئی مسافر ہوں تھکا ہارا ہوا جس طرف بھی اب اڑا لے جائیں مجھ کو آندھیاں ایک پتہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے شہر میں دیکھوں تو کیا نہیں ملتا

    تمہارے شہر میں دیکھوں تو کیا نہیں ملتا بس اپنے گھر کے لیے راستہ نہیں ملتا عروج پر ہے نئے موسموں کا جاہ و جلال شجر پہ کوئی بھی پتہ ہرا نہیں ملتا ابھی ابھی کوئی آندھی ادھر سے گزری ہے رہ حیات مجھے نقش پا نہیں ملتا بچھڑ کے تجھ سے طبیعت اچاٹ رہتی ہے خود اپنے گھر میں بھی گھر کا مزا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں تھا پیار لبوں پر نام وفا کا تھا

    آنکھوں میں تھا پیار لبوں پر نام وفا کا تھا کل تک تو وہ شخص بھی بالکل میرے جیسا تھا اپنی اپنی مٹھی میں سب جگنو رکھے تھے لیکن سب کی راہوں میں کتنا اندھیارا تھا آندھی آنے سے پہلے ہی بچے جاگ گئے رات ہواؤں کے چلنے میں شور بلا کا تھا ہلکی سی بوچھار نے سارے نقش مٹا ڈالے رنگ ہماری ...

    مزید پڑھیے

    چند فقرے زیر لب تڑپا کیے

    چند فقرے زیر لب تڑپا کیے وہ ہمیں اور ہم انہیں دیکھا کیے غم تھا اپنی بد نصیبی کا انہیں دیر تک کچھ لفظ کل رویا کیے میرے قدموں میں رہی منزل مری راستے صورت مری دیکھا کیے غم بھی اک نعمت ہے لیکن دوستو ہم اسے پایا کیے کھویا کیے مجھ سے مل کر کل مرے احباب بھی دیر تک کیا جانے کیا سوچا ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کی کیا کہوں کہ سر پہ آسمان بھی نہیں

    زمیں کی کیا کہوں کہ سر پہ آسمان بھی نہیں ہماری قسمت وفا میں امتحان بھی نہیں اڑے تو کس طرح اڑے یہ آج طائر نگاہ ہوا بھی گرد گرد ہے پروں میں جان بھی نہیں سنوں میں اس کی جھوٹ بات اور ہنس کے چپ رہوں کہ میرے منہ میں اپنے واسطے زبان بھی نہیں قلم اٹھاؤ آج میں لہو کا ذائقہ لکھوں کہ اب مرے ...

    مزید پڑھیے

    بجا تھا زعم اگر اپنے بال و پر کا تھا

    بجا تھا زعم اگر اپنے بال و پر کا تھا کہ شوق بھی تو اسے چاند کے سفر کا تھا کہاں سے ٹوٹ پڑی بیچ میں فصیل جہاں معاملہ تو فقط میرے بام و در کا تھا میں لوٹ آیا دبے پاؤں گھر کے آنگن سے مکان غیر کا دروازہ اپنے گھر کا تھا خود اپنے سائے کو گھیرے میں لے کے بیٹھ گیا کہ اہتمام مرے آخری سفر کا ...

    مزید پڑھیے

    قدم قدم پہ عجب خوف سا گزرتا ہے

    قدم قدم پہ عجب خوف سا گزرتا ہے وہ اپنے گاؤں میں جاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے ہوائیں چلنے لگی ہیں چہار جانب سے سنبھالنا کہ ہر اک سلسلہ بکھرتا ہے کبھی جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے تمام بدن کبھی وہ دل میں دبے پاؤں بھی اترتا ہے بجائے اس کے کہ مجھ کو بھی جگمگا دیتا وہ چاند ہو کے مری تیرگی سے ڈرتا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے گھر کا عجیب و غریب منظر ہے

    ہمارے گھر کا عجیب و غریب منظر ہے کہیں تو آگ لگی ہے کہیں سمندر ہے وہ فاصلے ہیں کہ مٹتے نہیں کسی صورت سفر کا بھوت شب و روز میرے سر پر ہے وہ ایک لفظ جو عنوان گفتگو بنتا وہ ایک لفظ مری دسترس سے باہر ہے کسی کی آہٹیں دل کو ہلائے دیتی ہیں ضرور کوئی میرے جسم و جاں کے اندر ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3