اب اس کے ملنے کا کوئی گمان بھی تو نہیں
اب اس کے ملنے کا کوئی گمان بھی تو نہیں
کہ میرے شہر میں اس کا مکان بھی تو نہیں
سلگنا دھوپ میں ہے بھیگنا ہے بارش میں
کہ میرے سر پہ کوئی سائبان بھی تو نہیں
انہوں نے پوچھا جو مجھ سے سبب خموشی کا
کہوں گا کیا مرے منہ میں زبان بھی تو نہیں
میں اپنے آپ سے رہتا ہوں بے تعلق سا
نظر میں میری کوئی امتحان بھی تو نہیں