بعد اس کے میرے گھر میں اور کیا رہ جائے گا
بعد اس کے میرے گھر میں اور کیا رہ جائے گا
بس کسی کے نام کا پتھر لگا رہ جائے گا
کان بھر جائیں گے میرے خلوتوں کے شور سے
اس کی یادوں کا پیمبر بولتا رہ جائے گا
قید کر لے گا کوئی بچہ پروں کو کاٹ کر
آسماں کی سمت طوطا دیکھتا رہ جائے گا
قتل کر ڈالوں میں خود کو سوچتا ہوں بار بار
میرے ہاتھوں میں مگر یہ خوں لگا رہ جائے گا
اجنبی بن بن کے پوچھوں گا میں اپنی خیریت
آج آئینہ مرا منہ دیکھتا رہ جائے گا
لمس کے شعلوں میں ساری ہڈیاں گل جائیں گی
صرف کاندھوں پر ہمارا سر دھرا رہ جائے گا
لوگ ویرانے میں چھپ جائیں گے مارے خوف کے
بستیوں کے بیچ الو بولتا رہ جائے گا
یوں اڑاؤں گا میں سب کے سامنے اپنا مذاق
وہ مرے بارے میں کیا کچھ سوچتا رہ جائے گا