ظفر زیدی کی غزل

    اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

    اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے یہ بھی ممکن ہے بتا دے وہ کوئی کام کی بات اک نجومی کو چلو ہاتھ دکھایا جائے دیکھنا یہ ہے کہ کون آتا ہے سایہ بن کر دھوپ میں بیٹھ کے لوگوں کو بلایا جائے یا مری زیست کے آثار نمایاں کر دے یا بتا دے کہ تجھے کیسے ...

    مزید پڑھیے

    دشت کا لمبا سفر تھا دور تک سایہ نہ تھا

    دشت کا لمبا سفر تھا دور تک سایہ نہ تھا لوٹ جانے کے سوا آگے کوئی رستہ نہ تھا آندھیاں بے جان شاخوں سے الجھتیں بھی تو کیا پیڑ کے ننگے بدن پر ایک بھی پتہ نہ تھا کھل کے دونوں لڑ رہے تھے اک ذرا سی بات پر روکنے کے واسطے گھر میں کوئی بوڑھا نہ تھا سو گیا آنگن میں میں پھر چپ کی چادر اوڑھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3