جو تاب دید ملی بھی تو کیا دکھائی دیا

جو تاب دید ملی بھی تو کیا دکھائی دیا
دلوں کے بیچ عجب فاصلہ دکھائی دیا


سحر کا نکلا ہوا میں جو شام کو لوٹا
تو میرے گھر میں کوئی دوسرا دکھائی دیا


خلا میں بس گئے سب لوگ ایک اک کر کے
زمیں پہ جانے یہ کیا حادثہ دکھائی دیا


اڑاتے جاتے ہو خود کو یہ کس طرف یارو
سفر میں کیا کوئی رستہ نیا دکھائی دیا


نہ راس آیا مجھے میری قربتوں کا سفر
مرا خیال بھی مجھ سے جدا دکھائی دیا


نہ باڑھ آئی نہ طوفان ہی اٹھے امسال
سمندروں کا بھرم ٹوٹتا دکھائی دیا


تری نگاہ کی گہرائیوں میں دیکھا تو
مرا وجود پگھلتا ہوا دکھائی دیا


جہاں پہ سانس بھی لینا تھا ایک جرم ظفرؔ
وہاں بھی میرا لہو بولتا دکھائی دیا