اس طرح ٹوٹ کر گرا پانی

اس طرح ٹوٹ کر گرا پانی
بادلوں میں نہیں بچا پانی


گھر بنایا تو تھا بلندی پر
پھر بھی آنگن میں بھر گیا پانی


لڑ جھگڑ کر کبھی تو آگ بنا
اور کبھی برف بن گیا گیا پانی


مجھ کو اپنے ہی شہر کا یارو
راس آیا نہیں ہوا پانی


لوگ دیوانہ وار ٹوٹ پڑے
مدتوں بعد جب ملا پانی


ہاتھ تھامے ہوئے ہواؤں کا
راستے میں ہمیں ملا پانی


ایک بھی بوند کھیت کو نہ ملی
سب ہواؤں نے پی لیا پانی


لے کے چلو میں میں نے پھینک دیا
منہ مرا دیکھتا رہا پانی


مدتوں سے میں تشنہ لب تھا ظفرؔ
پھر بھی سب کو پلا دیا پانی