تمہارے شہر میں تھا بھی تو اک مسافر میں
تمہارے شہر میں تھا بھی تو اک مسافر میں
سو تھک کے بیٹھ گیا راستے میں آخر میں
میں ہر لحاظ سے سیراب تھا خدا کی قسم
یہ اور بات کہ پیاسا رہا بظاہر میں
حروف ملتے ہی آواز ڈوب جاتی ہے
جو چپ رہوں نہ بتاؤ تو کیا کروں پھر میں
کسی بھی سمت بھٹکتا پھروں یمین و یسار
تلاش راہ کروں بھی تو کس کی خاطر میں
مری خوشی کو یہی ربط باہمی ہے بہت
مرا مغنی ہے وہ اور اس کا شاعر میں
یہ کھیل ختم بنا ہار جیت کے ہوگا
کہ جس ہنر میں وہ یکتا اسی میں ماہر میں
ہزار باندھا گیا مجھ پہ آئینوں کا حصار
کسی پہ اپنے علاوہ ہوا نہ ظاہر میں