اس سے پہلے کہ نیا پھر کوئی حملہ ہو جائے
اس سے پہلے کہ نیا پھر کوئی حملہ ہو جائے
جاگتے رہیے یہاں تک کہ سویرا ہو جائے
خود کو ہر سمت سے پانی میں گھرا پاتا ہوں
مجھ پہ اللہ کرے پیاس کا غلبہ ہو جائے
جسم میں جسم چھپا لیجے کہ اس سے پہلے
ٹھنڈ بڑھ جائے ہوا کا کوئی حملہ ہو جائے
کب سے وہ سنگ لیے پھرتا ہے بے چین اداس
آج اے کاش مرا جسم بھی شیشہ ہو جائے
روز ہر چہرہ نیا ہر نئی پوشاک کے ساتھ
کیسے ہر کوئی ظفرؔ آپ کے جیسا ہو جائے