دو پیادے
سردیوں کے موسم میں پچھلی رات کو چھت پر
ہم جو ایک دوجے سے چاندنی کی بارش میں
بے زبان جذبوں کی خوشبوؤں سے ملتے تھے
حسن دل ربا تیرا لفظ کی حقیقت سے کتنا بے تعلق تھا
ان کہا سنا سب کچھ لمحۂ مسرت تھا
جب سے لب کشائی کے سلسلے ہوئے جاری
تیری میری بحثوں نے
ان کہا سنا سب کچھ
منطقوں دلیلوں کے واہموں سے گدلایا
اور پھر محبت کے سب گلاب سنولائے
آج اجنبیت کی بے ثمر فضاؤں میں
ہم کہ ایک دوجے سے کتنے بے تعلق ہیں
اولیں رفاقت کی ساری خصلتیں کھو کر
اس بساط ہستی پر
صرف دو پیادے ہیں