پچھتاوا
میں نے دیکھے ہیں وہ مرحلے کہ جہاں
زندگی موت کا باہمی فاصلہ
دو قدم بھی نہ تھا
ایسے لمحوں کی ساری اذیت کو میں
کس قدر حوصلوں سے سنبھالے رہا
جب تلک مجھ میں جینے کے آزار سے منسلک
سانس لینے کی خواہش رہی
میری فکر و نظر کی سبھی کاوشیں
تیرہ و تار موجوں سے لڑتی رہیں
اور میں موت کی سیڑھیوں پہ کھڑا
مسکراتا رہا
اب مگر سوچتا ہوں کہ اے جان جاں
جسم کی ساری آسائشیں بے صفت
بزم کی ساری سر مستیاں بد وضع
زندگی موت کا باہمی فاصلہ
دو قدم ہی تو تھا
لوٹ آیا ہوں کیوں