وطن کے لیے دعا
یہاں نہ کوئی درخت ہوگا
نہ پھول پتے نہ گھاس شبنم
نہ چاند راتوں کو اپنا چہرہ دکھا سکے گا
نہ دن کو سورج
ہوا سلاخوں سے سر پٹخ کر
گلے میں پھندا لیے یوں ہی در بدر پھرے گی
یہ میری دھرتی یوں ہی رہے گی
خزاں ہواؤں نے اس کی شادابیوں کے منظر اجاڑنے کو
وہ گل کھلائے
قضا بھی قسطوں میں آ رہی ہے
مرا وطن ایک بوڑھے برگد کی شاخ نازک بنا ہوا ہے
مری دعا ہے
کہ میں بھی کرب و بلا سے گزروں
کہ ایسے شاداب منظروں کا اجاڑ پن
میں نہ دیکھ پاؤں