Yahya Khan Yusuf Zai

یحیٰ خان یوسف زئی

یحیٰ خان یوسف زئی کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس

    دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس اس طرح کھینچتی ہے یہ تار نفس کہ بس پھر یوں ہوا کہ روشنی نازل ہوئی وہاں پھر دیکھتے ہی کھل گیا چاک قفس کہ بس میں برف کی چٹان ہوں تو گرم رو چراغ مت پوچھ مجھ پہ کیا ہے تری دسترس کہ بس دم ساز تو بہت ہیں کوئی شناس ہو کوئی تپش سی ہے تہہ موج نفس کہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے مٹ جانے کا ادراک لئے پھرتا ہوں

    اپنے مٹ جانے کا ادراک لئے پھرتا ہوں ختم ہوتی ہوئی املاک لئے پھرتا ہوں آسماں میرا اک امکان لئے پھرتا ہے اور میں منطق افلاک لئے پھرتا ہوں خاک پاؤں سے نہ لگتی تھی کبھی لیکن اب خاک اور باد کی پوشاک لئے پھرتا ہوں کتنی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی دنیا ہے یہ خاک اڑاتا ہوں جگر چاک لئے پھرتا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی سرمایہ کب رہا محفوظ

    کوئی سرمایہ کب رہا محفوظ اک فقیری کا راستہ محفوظ گوشۂ دل ہے عالم حیرت بڑا معمور ہے بڑا محفوظ دشت پھر کیوں نہیں رہے آباد ابر آزاد ہے ہوا محفوظ کشمکش میں ہے طائر فردوس زمیں آباد اور خلا محفوظ جو ہوا کی پناہ میں آئے وہی رہ جائے گا دیا محفوظ

    مزید پڑھیے

    تری یادوں کے چراغوں میں یہ جلتی ہوئی رات

    تری یادوں کے چراغوں میں یہ جلتی ہوئی رات مری آنکھوں سے چھلکتی رہی ڈھلتی ہوئی رات سم امروز سے مارا ہوا ہارا ہوا دن کسی فردا کی امیدوں پہ بہلتی ہوئی رات کبھی آنکھوں میں رکے کوئی گزرتا ہوا پل کبھی سانسوں میں اٹک جاتی ہے چلتی ہوئی رات نہ ٹلا ہے کبھی زخموں میں سلگتا ہوا دن نہ تھمی ...

    مزید پڑھیے

    اک لمحہ جو فرقت کے سوا اور بھی کچھ تھا

    اک لمحہ جو فرقت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک غم جو قیامت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک چہرہ نگاہوں کے لیے فیض رساں تھا اک خواب زیارت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک نقش تصور کے پرے بھی تھا مجسم اک وہم حقیقت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک داغ جو رکھتا تھا مرے سینے کو روشن اک نام جو تہمت کے سوا اور ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    سپنولے

    بنی آدم تمہیں کچھ یاد بھی ہے جب تمہیں روشن نشانی دی گئی تھی گھمنڈی تیرگی کو جب گپھاؤں میں جلا کر مرغزاروں کو بہاروں سے سجایا جا رہا تھا تم اپنے ساتھ اک روشن نشانی اور گپھاؤں کی وراثت لے کے آئے تھے تمہارے ساتھ تھوڑے سانپ بھی تھے جنہوں نے اپنے ورثے کو گپھاؤں سے مہکتے مرغزاروں ...

    مزید پڑھیے

    فصل استادہ

    ہماری نسل دشت نا مراد کی وہ فصل ہے جسے اندھیروں سے نمو ملی یہ وحشتوں کا نم کشید کر جڑوں کو سینچتی رہی یہ خوف کی فضاؤں میں بھی پھلتی پھولتی رہی یہ فصل نا ترس جو اب تمام ہے کمال ہے جہان خوش معاش کے کسی نئے فریب کی ہے منتظر

    مزید پڑھیے

    قیام یک شبانہ

    وہ چلی گئی وہ چٹاخ چڑیا چلی گئی مرے آشیاں میں گذشتہ شب وہ رکی مگر دم صبح پھر سے وہ اڑ گئی اسے اڑتے رہنا پسند تھا سو چلی گئی بڑی شوخ تھی بڑی تیز رو بڑا چہچہاتی تھی مسکراتی تھی اس کے پنکھوں میں کوئی دام وصال تھا مجھے اس کا نام پتا نہیں وہ کہاں سے آئی نہیں خبر وہ یہیں کہیں پہ چھپی ...

    مزید پڑھیے

    یمن اور شام کے بچوں کے لئے

    نماز وحشت قبر سفید خون والے لوگ سیاہ دشت میں اجل کی روشنی بکھیرتے رہے ہم اپنی قبر میں پڑے ہوئے اجل کی روشنی سے بچ گئے مگر نئے کھلے ہوئے گل آفتاب اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہم اپنی قبر میں پڑے پڑے یہ سوچتے ہیں اب امید کیا کریں کہ اپنے واسطے کوئی پڑھے نماز وحشت قبر

    مزید پڑھیے

    آزادی

    جب ہم نے چلنا سیکھا ہمیں دوڑنا سکھایا گیا جب ہم دوڑنے لگے ہمیں بیساکھیاں تحفہ میں ملیں جب ہم نے سوچنا شروع کیا ہمارے چہرے مسخ کر دئے جب ہم نے بولنا چاہا ہمیں موت دے دی گئی

    مزید پڑھیے