دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس

دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس
اس طرح کھینچتی ہے یہ تار نفس کہ بس


پھر یوں ہوا کہ روشنی نازل ہوئی وہاں
پھر دیکھتے ہی کھل گیا چاک قفس کہ بس


میں برف کی چٹان ہوں تو گرم رو چراغ
مت پوچھ مجھ پہ کیا ہے تری دسترس کہ بس


دم ساز تو بہت ہیں کوئی شناس ہو
کوئی تپش سی ہے تہہ موج نفس کہ بس


صحرا مرے مزاج کا حصہ ہے پھر بھی آج
اک ابر زاد نے کیا اس طرح مس کہ بس