اپنے مٹ جانے کا ادراک لئے پھرتا ہوں

اپنے مٹ جانے کا ادراک لئے پھرتا ہوں
ختم ہوتی ہوئی املاک لئے پھرتا ہوں


آسماں میرا اک امکان لئے پھرتا ہے
اور میں منطق افلاک لئے پھرتا ہوں


خاک پاؤں سے نہ لگتی تھی کبھی لیکن اب
خاک اور باد کی پوشاک لئے پھرتا ہوں


کتنی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی دنیا ہے یہ
خاک اڑاتا ہوں جگر چاک لئے پھرتا ہوں