Yahya Khan Yusuf Zai

یحیٰ خان یوسف زئی

یحیٰ خان یوسف زئی کی نظم

    سپنولے

    بنی آدم تمہیں کچھ یاد بھی ہے جب تمہیں روشن نشانی دی گئی تھی گھمنڈی تیرگی کو جب گپھاؤں میں جلا کر مرغزاروں کو بہاروں سے سجایا جا رہا تھا تم اپنے ساتھ اک روشن نشانی اور گپھاؤں کی وراثت لے کے آئے تھے تمہارے ساتھ تھوڑے سانپ بھی تھے جنہوں نے اپنے ورثے کو گپھاؤں سے مہکتے مرغزاروں ...

    مزید پڑھیے

    فصل استادہ

    ہماری نسل دشت نا مراد کی وہ فصل ہے جسے اندھیروں سے نمو ملی یہ وحشتوں کا نم کشید کر جڑوں کو سینچتی رہی یہ خوف کی فضاؤں میں بھی پھلتی پھولتی رہی یہ فصل نا ترس جو اب تمام ہے کمال ہے جہان خوش معاش کے کسی نئے فریب کی ہے منتظر

    مزید پڑھیے

    قیام یک شبانہ

    وہ چلی گئی وہ چٹاخ چڑیا چلی گئی مرے آشیاں میں گذشتہ شب وہ رکی مگر دم صبح پھر سے وہ اڑ گئی اسے اڑتے رہنا پسند تھا سو چلی گئی بڑی شوخ تھی بڑی تیز رو بڑا چہچہاتی تھی مسکراتی تھی اس کے پنکھوں میں کوئی دام وصال تھا مجھے اس کا نام پتا نہیں وہ کہاں سے آئی نہیں خبر وہ یہیں کہیں پہ چھپی ...

    مزید پڑھیے

    یمن اور شام کے بچوں کے لئے

    نماز وحشت قبر سفید خون والے لوگ سیاہ دشت میں اجل کی روشنی بکھیرتے رہے ہم اپنی قبر میں پڑے ہوئے اجل کی روشنی سے بچ گئے مگر نئے کھلے ہوئے گل آفتاب اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہم اپنی قبر میں پڑے پڑے یہ سوچتے ہیں اب امید کیا کریں کہ اپنے واسطے کوئی پڑھے نماز وحشت قبر

    مزید پڑھیے

    آزادی

    جب ہم نے چلنا سیکھا ہمیں دوڑنا سکھایا گیا جب ہم دوڑنے لگے ہمیں بیساکھیاں تحفہ میں ملیں جب ہم نے سوچنا شروع کیا ہمارے چہرے مسخ کر دئے جب ہم نے بولنا چاہا ہمیں موت دے دی گئی

    مزید پڑھیے