Yahya Khan Yusuf Zai

یحیٰ خان یوسف زئی

یحیٰ خان یوسف زئی کی غزل

    دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس

    دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس اس طرح کھینچتی ہے یہ تار نفس کہ بس پھر یوں ہوا کہ روشنی نازل ہوئی وہاں پھر دیکھتے ہی کھل گیا چاک قفس کہ بس میں برف کی چٹان ہوں تو گرم رو چراغ مت پوچھ مجھ پہ کیا ہے تری دسترس کہ بس دم ساز تو بہت ہیں کوئی شناس ہو کوئی تپش سی ہے تہہ موج نفس کہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے مٹ جانے کا ادراک لئے پھرتا ہوں

    اپنے مٹ جانے کا ادراک لئے پھرتا ہوں ختم ہوتی ہوئی املاک لئے پھرتا ہوں آسماں میرا اک امکان لئے پھرتا ہے اور میں منطق افلاک لئے پھرتا ہوں خاک پاؤں سے نہ لگتی تھی کبھی لیکن اب خاک اور باد کی پوشاک لئے پھرتا ہوں کتنی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی دنیا ہے یہ خاک اڑاتا ہوں جگر چاک لئے پھرتا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی سرمایہ کب رہا محفوظ

    کوئی سرمایہ کب رہا محفوظ اک فقیری کا راستہ محفوظ گوشۂ دل ہے عالم حیرت بڑا معمور ہے بڑا محفوظ دشت پھر کیوں نہیں رہے آباد ابر آزاد ہے ہوا محفوظ کشمکش میں ہے طائر فردوس زمیں آباد اور خلا محفوظ جو ہوا کی پناہ میں آئے وہی رہ جائے گا دیا محفوظ

    مزید پڑھیے

    تری یادوں کے چراغوں میں یہ جلتی ہوئی رات

    تری یادوں کے چراغوں میں یہ جلتی ہوئی رات مری آنکھوں سے چھلکتی رہی ڈھلتی ہوئی رات سم امروز سے مارا ہوا ہارا ہوا دن کسی فردا کی امیدوں پہ بہلتی ہوئی رات کبھی آنکھوں میں رکے کوئی گزرتا ہوا پل کبھی سانسوں میں اٹک جاتی ہے چلتی ہوئی رات نہ ٹلا ہے کبھی زخموں میں سلگتا ہوا دن نہ تھمی ...

    مزید پڑھیے

    اک لمحہ جو فرقت کے سوا اور بھی کچھ تھا

    اک لمحہ جو فرقت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک غم جو قیامت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک چہرہ نگاہوں کے لیے فیض رساں تھا اک خواب زیارت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک نقش تصور کے پرے بھی تھا مجسم اک وہم حقیقت کے سوا اور بھی کچھ تھا اک داغ جو رکھتا تھا مرے سینے کو روشن اک نام جو تہمت کے سوا اور ...

    مزید پڑھیے

    دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس

    دل سے نکل نہ پائے گی موج ہوس کہ بس اس طرح کھینچتی ہے یہ تار نفس کہ بس پھر یوں ہوا کہ روشنی نازل ہوئی وہاں پھر دیکھتے ہی کھل گیا چاک قفس کہ بس میں برف کی چٹان ہوں تو گرم رو چراغ مت پوچھ مجھ پہ کیا ہے تری دسترس کہ بس دم ساز تو بہت ہیں کوئی دم شناس ہو کوئی تپش سی ہے تہہ موج نفس کہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی بھی خانماں برباد سے نہیں ہوگا

    کسی بھی خانماں برباد سے نہیں ہوگا ہمارا عشق تو فرہاد سے نہیں ہوگا تمہاری داد یا بے داد سے نہیں ہوگا ہمارا شعر ہے امداد سے نہیں ہوگا یہ لفظیات یہ بندش یہ فکر فرسائی یہ کام وہ ہے جو نقاد سے نہیں ہوگا یوں کھینچتا ہوں غزل میں ترے بدن کے خطوط یہ جان من کسی بہزاد سے نہیں ہوگا اگر ...

    مزید پڑھیے

    تیری سانسوں کا زیر و بم جانم

    تیری سانسوں کا زیر و بم جانم توڑ دے صبر کا بھرم جانم یہ بدن کوئی پر خطر رستہ فتنہ ساماں ہے خم بہ خم جانم ایسی نازک کمر کہ جلتے ہیں بہتی ندیوں کے پیچ و خم جانم تم نے بس مسکرا کے دیکھ لیا لڑکھڑانے لگے قدم جانم اتنی مدت کے بعد ملتی ہو حال پوچھو گی کم سے کم جانم

    مزید پڑھیے

    آسماں آتش ظلمات میں جل جائے تو

    آسماں آتش ظلمات میں جل جائے تو خندۂ صبح کی تصویر بدل جائے تو اب تو آرام قیامت پہ ہوا ہے موقوف اور یہ آخری امید بھی ٹل جائے تو عکس آئینے میں اور عکس میں روپ اس کا ہے کبھی یہ آئنہ آنکھوں سے بدل جائے تو یہ جو دم سادھ کے بیٹھے ہیں اسے دیکھنے کو پتھروں کی بھی کہیں آہ نکل جائے تو ہم ...

    مزید پڑھیے

    اور پھر چہرۂ خاشاک بدل جائے گا

    اور پھر چہرۂ خاشاک بدل جائے گا ایک دن موسم سفاک بدل جائے گا جب یہ ہنگام خوش ادراک بدل جائے گا آپ کا پیرہن خاک بدل جائے گا کوئی بے داغ قبا پوش ہے قاتل اپنا قتل کر لے گا تو پوشاک بدل جائے گا دام امید میں باندھے گا تمنائے خام وقت آنے پہ وہ چالاک بدل جائے گا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2