آسماں آتش ظلمات میں جل جائے تو
آسماں آتش ظلمات میں جل جائے تو
خندۂ صبح کی تصویر بدل جائے تو
اب تو آرام قیامت پہ ہوا ہے موقوف
اور یہ آخری امید بھی ٹل جائے تو
عکس آئینے میں اور عکس میں روپ اس کا ہے
کبھی یہ آئنہ آنکھوں سے بدل جائے تو
یہ جو دم سادھ کے بیٹھے ہیں اسے دیکھنے کو
پتھروں کی بھی کہیں آہ نکل جائے تو
ہم سے آوارۂ غربت سے محبت نہ کرو
کیا ہو جو ریت یہ مٹھی سے نکل جائے تو