عمر فرحت کی غزل

    جسم سیاہی بناؤں گا

    جسم سیاہی بناؤں گا تیرا حرف سجاؤں گا تو بہتا پانی بن جا میں مچھلی بن جاؤں گا کل موسم کی ہتھیلی پر نام ترا کھدواؤں گا اپنا غبار اڑا کر میں کچھ تصویر بناؤں گا کسی کواڑ کی آڑ میں اب تجھ کو لا کے چھپاؤں گا ترے بدن کے پانی سے میں سورج چمکاؤں گا

    مزید پڑھیے

    تجھ کو تکتا رہتا ہوں

    تجھ کو تکتا رہتا ہوں میں بھی تیرے جیسا ہوں وہ مٹی ہو جاتا ہے جس کو ہاتھ لگاتا ہوں میں مٹی کے خوابوں سے عشق بنا کے بیٹھا ہوں آپ کو چھاؤں مبارک ہو میں تو پیڑ اگاتا ہوں میں کانچ کا چھوٹا سا گھر کس کے لئے بناتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرے ہر اک کا منہ تکتا ہوں تم ہی تم تو ہوتے ہو جب ...

    مزید پڑھیے

    اس میں کیا دلیل ہے

    اس میں کیا دلیل ہے ایک سنگ میل ہے ہنس کے توڑ دے اسے درد کی فصیل ہے شہرتوں کے واسطے پیاس ہی سبیل ہے دیکھتے ہیں ہر طرف کیا کوئی عدیل ہے جس کا نام ہے عمرؔ وہ بھی بے قبیل ہے

    مزید پڑھیے

    ہے کوئی اور بھی جہان میں کیا

    ہے کوئی اور بھی جہان میں کیا میں نہیں ہوں ترے گمان میں کیا تو نے فتراک ساتھ تو رکھا تیر بھی ہے تری کمان میں کیا ایک سایا تھا دل میں وہ بھی بجھا رہ گیا ہے اب اس مکان میں کیا زیر سایہ ہے اور سبھی دنیا ہم نہیں ہیں تری امان میں کیا کوئی بھی تجھ سے بات کرتا نہیں زہر سا ہے تری زبان میں ...

    مزید پڑھیے

    الٹی تصویر پہن کر نکلے

    الٹی تصویر پہن کر نکلے اپنی تقدیر پہن کر نکلے اس کو دیکھا تھا بہت آنکھوں نے خواب تعبیر پہن کر نکلے فصل گل آ گئی تو پاؤں میں ہم بھی زنجیر پہن کر نکلے شعر ہم نے بھی بہت لکھ ڈالے کیسی تشہیر پہن کر نکلے ہر طرف اپنی علم داری ہے کیسے یہ تیر پہن کر نکلے ساتھ دینے کو بہتر کا عمرؔ ہم ...

    مزید پڑھیے

    یہ دنیا کس چکر میں کھو جاتی ہے

    یہ دنیا کس چکر میں کھو جاتی ہے ہونے والی بات تو بس ہو جاتی ہے تیرے حق میں میں تنہا رہ جاتا ہوں ساری دنیا ایک طرف ہو جاتی ہے اس کی یاد کے جگنو جاگتے رہتے ہیں میری آنکھ تو پل بھر میں سو جاتی ہے خود ہی تماشا بنتا ہوں خود کا فرحتؔ یہ خاموشی کیا دل میں بو جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    سیہ چادر میں لپٹا ہے

    سیہ چادر میں لپٹا ہے فلک سے چاند اترا ہے ندی میں ڈوبتا سورج کئی دن سے پگھلتا ہے تمہاری ذات کی چھت پر کوئی رسی سے لٹکا ہے جگاؤ مت اسے فرحتؔ یہ الو شب کا جاگا ہے

    مزید پڑھیے

    آسماں سے اترتا ہوا

    آسماں سے اترتا ہوا ایک تارہ بجھایا ہوا آج بھی رات کی رانی کے تن سے ہے ناگ لپٹا ہوا ایک پتا کسی شاخ سے ٹوٹ کر آج تنہا ہوا کاغذی تن ہے اس کا مگر دھوپ میں کب سے جھلسا ہوا پہلا اکھشر ترے نام کا روشنی سے ہے لکھا ہوا

    مزید پڑھیے

    دیوار پھلانگ کر آیا

    دیوار پھلانگ کر آیا سورج کا آدھا سایا ناگن نے پلٹ پلٹ کر دیر تلک مجھ کو ڈرایا تھا کوئی اور کھنڈر میں جس نے وہ چراغ جلایا کل شب پاگل ہو کر وہ پھر میرے تن میں سمایا اس کے تن کی ریت پہ کیا میں نے کچھ خاکہ بنایا

    مزید پڑھیے

    دھوپ نایاب ہوئی جاتی ہے

    دھوپ نایاب ہوئی جاتی ہے چھاؤں بے تاب ہوئی جاتی ہے پانی دریا میں نہیں ہے لیکن بستی غرقاب ہوئی جاتی ہے گر گئی اوس بدن پر کیسی روح سیراب ہوئی جاتی ہے میں کسی رات کا سناٹا ہوں وہ کوئی خواب ہوئی جاتی ہے برف کیا دور گری ہے فرحتؔ ندی پایاب ہوئی جاتی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2