دھوپ نایاب ہوئی جاتی ہے

دھوپ نایاب ہوئی جاتی ہے
چھاؤں بے تاب ہوئی جاتی ہے


پانی دریا میں نہیں ہے لیکن
بستی غرقاب ہوئی جاتی ہے


گر گئی اوس بدن پر کیسی
روح سیراب ہوئی جاتی ہے


میں کسی رات کا سناٹا ہوں
وہ کوئی خواب ہوئی جاتی ہے


برف کیا دور گری ہے فرحتؔ
ندی پایاب ہوئی جاتی ہے