قیدی
وہ میرے غصے کا ایک لمحہ جو ٹل نہ پایا تھا دل کے معبد میں اک خداوند اسی کو سولی پہ مار ڈالا کرن امیدوں کی راکھ کر دی مسرتوں کی تمام کلیاں خود اپنے پیروں سے روند ڈالیں مگر یہ قطرے لہو کے قطرے درون سینہ ٹپک رہے ہیں گواہ ہوں گی یہ زرد آنکھیں کہ میرے دل میں عجب جہنم بھڑک رہا ہے جو ہو رہا ...