عمر فرحت کی نظم

    قیدی

    وہ میرے غصے کا ایک لمحہ جو ٹل نہ پایا تھا دل کے معبد میں اک خداوند اسی کو سولی پہ مار ڈالا کرن امیدوں کی راکھ کر دی مسرتوں کی تمام کلیاں خود اپنے پیروں سے روند ڈالیں مگر یہ قطرے لہو کے قطرے درون سینہ ٹپک رہے ہیں گواہ ہوں گی یہ زرد آنکھیں کہ میرے دل میں عجب جہنم بھڑک رہا ہے جو ہو رہا ...

    مزید پڑھیے

    اگلا صفحہ

    تخلیق کے خمار میں چور ایک خوش گوار موڑ میں اس نے جب بے حساب لوگوں کے نصیب میں خوشیاں لکھ ڈالی ہوں گی بے شمار تب اس نے رک کر سوچا ہوگا توازن کی خاطر کچھ تو تبدیلی چاہیے اور یوں اس موڑ میں لکھ کر اگلا نصیب اس نے جو پلٹا صفحہ وہ میرا تھا

    مزید پڑھیے