تسنیم عابدی کی غزل

    دن کا راجا ہوتا ہے اور رات کی رانی ہوتی ہے

    دن کا راجا ہوتا ہے اور رات کی رانی ہوتی ہے ہر خوشبو کی اپنی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے پہلے اک اک خواب سے ہم تعمیر تمنا کرتے ہیں پھر دل میں تعبیر کی خود ہی خاک اڑائی ہوتی ہے پہلا شگوفہ حیرت کا دنیا کو دیکھ کے پھوٹا تھا اس کے بعد تو جیون بھر خود پر حیرانی ہوتی ہے رات اماوس کی ہے سر پر ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتہ پوچھتی ہے

    ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتہ پوچھتی ہے کتنے باقی ہیں دیے روز ہوا پوچھتی ہے روز کلیوں کو کھلاتے ہوئے کرتی ہے سوال کس کے دامن کی مہک ہے یہ صبا پوچھتی ہے کس جگہ تجھ کو ٹھہرنا ہے تمنائے جہاں لڑکھڑاتے ہوئے یہ لغزش پا پوچھتی ہے تشنگی اور ہے صحرائے تمنا کتنی جو برستی نہیں کھل کے وہ گھٹا ...

    مزید پڑھیے

    لوگ بازار میں پھرتے ہیں ضرورت کے بغیر

    لوگ بازار میں پھرتے ہیں ضرورت کے بغیر دل اسی واسطے بک جاتا ہے قیمت کے بغیر میں ادھوری ہی رہی عشق بھی پورا نہ ہوا عالم کن ہے یہ تکمیل کی صورت کے بغیر ہر تمنا کے بگولے سے صدا آتی ہے آپ کیوں آئے تھے اس دشت میں وحشت کے بغیر آئینہ خانے سے کچھ بھی نہیں مل پایا مجھے میں نے جب دیکھنا ...

    مزید پڑھیے

    کاوش روزگار نے عمر رواں کو کھا لیا

    کاوش روزگار نے عمر رواں کو کھا لیا دشت سکوت نے مرے زمزمہ خواں کو کھا لیا ہائے وہ صبح بے بسی ہائے وہ شام بے کسی ساعت بد نے اس دفعہ آزردگاں کو کھا لیا تذکرے رہ گئے فقط وہ بھی ہیں کتنی دیر تک تو نے سکوت بے کراں حرف و بیاں کو کھا لیا کاسۂ وقت میں کوئی سکۂ روز و شب کہاں باد فنا نے ...

    مزید پڑھیے

    بے طلب کر کے ضرورت بھی چلی جائے اگر

    بے طلب کر کے ضرورت بھی چلی جائے اگر ڈر رہی ہوں کہ یہ وحشت بھی چلی جائے اگر شام ہوتے ہی ستاروں سے یہ پوچھا اکثر شام ہونے کی یہ صورت بھی چلی جائے اگر اک ترا درد سلیقے سے سنبھالا لیکن دیدۂ تر سے طراوت بھی چلی جائے اگر یہ تو ہے خون جگر چاہئے لیکن اے دل شعر کہنے کی رعایت بھی چلی جائے ...

    مزید پڑھیے

    پھول مرجھا جائیں گے کانٹے لگے رہ جائیں گے

    پھول مرجھا جائیں گے کانٹے لگے رہ جائیں گے ہر خوشی مٹ جائے گی بس دکھ ہرے رہ جائیں گے لالہ زاروں کہساروں میں تمہیں ڈھونڈیں گے ہم یاد کے بے نام سے کچھ سلسلے رہ جائیں گے تم قریب ہو کر بھی اتنی دور ہوتے جاتے ہو قربتوں کے درمیاں بس فاصلے رہ جائیں گے تصفیہ مابین اپنے ہو نہ پائے گا ...

    مزید پڑھیے

    شور اندر جو ہے برپا وہ صدا ہو نہ سکا

    شور اندر جو ہے برپا وہ صدا ہو نہ سکا لفظ زنجیر معانی سے رہا ہو نہ سکا بات چوکھٹ سے جو نکلی تو جبیں تک پہنچی پھر جو سجدہ مجھے کرنا تھا ادا ہو نہ سکا اتنی سی بات میں سمٹی تھی کہانی ساری اس کی میں ہو نہ سکی اور وہ مرا ہو نہ سکا ہر صنم خانے کی قسمت نہیں کعبے جیسی دل میں جو بت تھا سجایا ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر رواں کا مال حیرت ہے

    تمام عمر رواں کا مال حیرت ہے جواب جس کا نہیں وہ سوال حیرت ہے دکان چشم یہاں بے مثال حیرت ہے اس آئنے کا سراسر کمال حیرت ہے یہ زندگی تو ترے ساتھ ساتھ ختم ہوئی جو مجھ میں باقی ہے وہ لا زوال حیرت ہے وہ خواب ایسے تھے تعبیر ان کی تھی ہی نہیں رمیدہ ہجر گریزاں وصال حیرت ہے ہوئی طلسم زدہ ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دیر طبیعت بحال رہنے دے

    ذرا سی دیر طبیعت بحال رہنے دے میں یوں ہی خوش ہوں مجھے پر ملال رہنے دے خبر نہیں کہ غلط کیا ہے اور کیا ہے درست دلا یہ عشق ہے تو قیل و قال رہنے دے یہاں پہ حرکت معکوس کا ہے دخل بڑا اسی لیے مجھے وقف سوال رہنے دے کسے ہے ظرف تمنا کی وسعتوں کی خبر میں ہجر مانگ رہی ہوں وصال رہنے دے کسی ...

    مزید پڑھیے

    ہوئے ہو کس لئے برہم عزیزم

    ہوئے ہو کس لئے برہم عزیزم سر تسلیم ہے لو خم عزیزم چراغ حجرۂ جاں کی خبر لو لبوں پر آ گیا ہے دم عزیزم نہیں بھرتا یہ زخم ہجر اپنا لگاؤ وصل کا مرہم عزیزم تم آتے ہو تو دم آتا ہے گویا تم آتے ہو مگر کم کم عزیزم نبود و بود کی اس کشمکش میں عجب ہے حالت پیہم عزیزم تو ہی تو ہے میں قطرہ تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3