ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا
ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا خواب ہی خواب کی تعبیر میں رکھا گیا تھا آگہی روز ڈراتی رہی منزل سے مگر حوصلہ پاؤں کی زنجیر میں رکھا گیا تھا کون بسمل تھا بتا ہی نہیں سکتا کوئی زخم دل سینۂ شمشیر میں رکھا گیا تھا ساز و آواز کے ملنے سے اثر ہونے لگا تیرا لہجہ مری تحریر میں رکھا ...