تسنیم عابدی کی غزل

    ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا

    ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا خواب ہی خواب کی تعبیر میں رکھا گیا تھا آگہی روز ڈراتی رہی منزل سے مگر حوصلہ پاؤں کی زنجیر میں رکھا گیا تھا کون بسمل تھا بتا ہی نہیں سکتا کوئی زخم دل سینۂ شمشیر میں رکھا گیا تھا ساز و آواز کے ملنے سے اثر ہونے لگا تیرا لہجہ مری تحریر میں رکھا ...

    مزید پڑھیے

    حبس جب حد سے بڑھا جسم کے ویرانے میں

    حبس جب حد سے بڑھا جسم کے ویرانے میں روح نے بین کیا دل کے عزا خانے میں ہائے وہ رنگ جو ابھرا مری بے دھیانی سے ہائے وہ نقش جو بنتا گیا انجانے میں اب کوئی حرف و معانی کی خبر کیا لائے اب کہانی ہی کہاں ہے مرے افسانے میں کوئی گتھی نہ کھلی ایک بھی عقدہ نہ کھلا مسئلہ اور الجھتا گیا ...

    مزید پڑھیے

    ہوائے شام چلے تو بکھرنے لگتی ہوں

    ہوائے شام چلے تو بکھرنے لگتی ہوں میں دشت دل سے سمٹ کر گزرنے لگتی ہوں ازل سے تا بہ ابد ایک لمحہ میرا ہے تری نگاہ میں جس دم ٹھہرنے لگتی ہوں نظر کے لمس سے رنگ بدن چھپاتی رہی میں تتلیوں کی طرح کیوں کہ مرنے لگتی ہوں ملی فراق کے آئینے میں پناہ مجھے وصال حرف میں ڈھل کر سنورنے لگتی ...

    مزید پڑھیے

    ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے

    ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے قدم سے لپٹا ہوا راستہ نہ رہ جائے ہوائے وحشت دل تیز چل رہی ہے بہت ردائے ہجر مرا سر کھلا نہ رہ جائے خدا کے نام پہ جس طرح لوگ مر رہے ہیں دعا کرو کہ اکیلا خدا نہ رہ جائے یہ لوگ کس لئے اپنے طواف میں ہیں مگن صنم کدے میں مصلیٰ بچھا نہ رہ جائے طنابیں ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر رواں کا مآل حیرت ہے

    تمام عمر رواں کا مآل حیرت ہے جواب جس کا نہیں وہ سوال حیرت ہے دکان چشم یہاں بے مثال حیرت ہے اس آئنے کا سراسر کمال حیرت ہے یہ زندگی تو ترے ساتھ ساتھ ختم ہوئی جو مجھ میں باقی ہے وہ لا زوال حیرت ہے وہ خواب ایسے تھے تعبیر ان کی تھی ہی نہیں رمیدہ ہجر گریزاں وصال حیرت ہے ہوئی طلسم زدہ ...

    مزید پڑھیے

    مریض عشق کا بہت عجیب حال ہو گیا

    مریض عشق کا بہت عجیب حال ہو گیا عجیب حال ہو گیا تو پھر وصال ہو گیا وہ کہہ رہا تھا زندگی گزارنا محال ہے وہ اب یہ کہہ رہا ہے یار کیا کمال ہو گیا میں شدت بیان سے نکل سکوں تو پھر کہوں یہ میرا لہجۂ سکوت بے مثال ہو گیا بہت ہوا تو یہ ہوا فریب آرزو یہاں طلب کے آئنے پہ عکس پر جمال ہو ...

    مزید پڑھیے

    ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے

    ہماری قربتوں میں فاصلہ نہ رہ جائے قدم سے لپٹا ہوا راستہ نہ رہ جائے ہوائے وحشت دل تیز چل رہی ہے بہت ردائے ہجر مرا سر کھلا نہ رہ جائے خدا کے نام پہ جس طرح لوگ مر رہے ہیں دعا کرو کہ اکیلا خدا نہ رہ جائے یہ لوگ کس لئے اپنے طواف میں ہیں مگن صنم کدے میں مصلیٰ بچھا نہ رہ جائے طنابیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتا پوچھتی ہے

    ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتا پوچھتی ہے کتنے باقی ہیں دیے روز ہوا پوچھتی ہے روز کلیوں کو کھلاتے ہوئے کرتی ہے سوال کیسی دامن کی مہک ہے یہ صبا پوچھتی ہے کس جگہ تجھ کو ٹھہرنا ہے تمنائے جہاں لڑکھڑاتے ہوئے یہ لغزش پا پوچھتی ہے تشنگی اور ہے صحرائے تمنا کتنی جو برستی نہیں کھل کے وہ گھٹا ...

    مزید پڑھیے

    راز کا بزم میں چرچا کبھی ہونے نہ دیا

    راز کا بزم میں چرچا کبھی ہونے نہ دیا ہم نے اپنے کو تماشا کبھی ہونے نہ دیا ہم کو اس گردش دوراں نے کہیں کا نہ رکھا پھر بھی لہجے کو شکستہ کبھی ہونے نہ دیا مے کدے میں بڑے کم ظرف تھے پینے والے آنکھ کو ساغر و مینا کبھی ہونے نہ دیا دل میں اک درد کا طوفان چھپائے رکھا آنکھ سے راز کو افشا ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں لکھا بھی اگر حاشیے میں رکھا گیا

    ہمیں لکھا بھی اگر حاشیے میں رکھا گیا نظر نہ آئے جو اس زاویے میں رکھا گیا ترے نصیب میں منزل کبھی نہ آئے گی سفر تمام طرح دائرے میں رکھا گیا ہوا کو یہ بھی بتایا کہ روشنی ہے کہاں چراغ کو بھی ترے راستے میں رکھا گیا انا کے نام پہ جب بن گیا صنم خانہ خدا کو لا کے وہاں بت کدے میں رکھا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3