تسنیم عابدی کی غزل

    اس آئنے سے نکل اور خود کو تنہا کر

    اس آئنے سے نکل اور خود کو تنہا کر کبھی تو سامنے آ کے کوئی تماشا کر میں دور ہوتی چلی جا رہی ہوں مرکز سے مجھے سمیٹ مرے دائرے کو چھوٹا کر ہجوم کذب و ریا سے بچا لے آ کے ذرا وجود صدق و صفا میں مجھے اکیلا کر ہر ایک بات بیاں کرنے کی نہیں ہوتی جو ان کہی رہے اس بات کو بھی سمجھا کر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جیسے خوشبو کو سلیقے سے صبا لے جائے

    جیسے خوشبو کو سلیقے سے صبا لے جائے کوئی ایسے ہی مجھے مجھ سے چھڑا لے جائے مرحلہ وار بکھرتی ہی گئی ہوں خود میں اب جدھر چاہے ہوا مجھ کو اڑا لے جائے جاذبیت ہے بڑی رونق دنیا تجھ میں اک غزال آئے مجھے سب سے بچا لے جائے ہائے وہ گرمیٔ بازار منا کہ مجھے ہر طلب خواب کے ناکے پہ بٹھا لے ...

    مزید پڑھیے

    اس بار ہوا کن کا اثر اور طرح کا

    اس بار ہوا کن کا اثر اور طرح کا اس بار ہے امکان بشر اور طرح کا اس بار مدینے ہی میں در آیا تھا کوفہ اس بار کیا ہم نے سفر اور طرح کا اس بار نہ اسباب نہ چادر پہ نظر تھی اس بار تھا لٹنے کا خطر اور طرح کا اس بار کوئی عیب کوئی عیب نہیں تھا اس بار کیا ہم نے ہنر اور طرح کا اس بار کوئی خیر ...

    مزید پڑھیے

    مرے چارہ گر تجھے کیا خبر، جو عذاب ہجر و وصال ہے

    مرے چارہ گر تجھے کیا خبر، جو عذاب ہجر و وصال ہے یہ دریدہ تن یہ دریدہ من تری چاہتوں کا کمال ہے مجھے سانس سانس گراں لگے، یہ وجود وہم و گماں لگے میں تلاش خود کو کروں کہاں مری ذات خواب و خیال ہے وہ جو چشم تر میں ٹھہر گیا وہ ستارہ جانے کدھر گیا نہ نشاط غم کا ہجوم اب نہ ہی سبز یاد کی ڈال ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3