شور اندر جو ہے برپا وہ صدا ہو نہ سکا
شور اندر جو ہے برپا وہ صدا ہو نہ سکا
لفظ زنجیر معانی سے رہا ہو نہ سکا
بات چوکھٹ سے جو نکلی تو جبیں تک پہنچی
پھر جو سجدہ مجھے کرنا تھا ادا ہو نہ سکا
اتنی سی بات میں سمٹی تھی کہانی ساری
اس کی میں ہو نہ سکی اور وہ مرا ہو نہ سکا
ہر صنم خانے کی قسمت نہیں کعبے جیسی
دل میں جو بت تھا سجایا وہ خدا ہو نہ سکا
عالم کن میں رہا شور مرے ہونے کا
پھر کوئی حادثہ مجھ سے بھی نیا ہو نہ سکا
تہمت عہد تمنا سے بھی نیا ہو نہ سکا
آج تک جس سے کوئی عہد وفا ہو نہ سکا