تسنیم عابدی کی نظم

    بین الاقوامی منظر نامہ

    کھلاڑی رو بہ رو بیٹھے ہیں اپنی چال چلتے ہیں بچھائی ہے سیاست کی بساط اور اس پہ لاشیں ہیں کہیں مقتول شیخان حرم کے کہیں پر شاہ کے کشتے کہیں ملکہ کے مردے ہیں کہیں جمہوریت کے ادھ موئے زخمی کراہے جا رہے ہیں کھلاڑی تعزیت کے رنگ کو چہرے پہ ملتے ہیں بڑی تہذیب اور شفقت سے لاشوں کو اٹھاتے ...

    مزید پڑھیے

    عالم عجلت

    آئینہ خانۂ عالم مجھے معلوم ہے یہ موجۂ وقت پہ جو عکس ابھرتے ہیں یہاں ان کی قسمت میں فنا لکھی ہے نہ تو امروز ہے کچھ اور نہ ہی فردا ہے ایک دو روز کا لمحہ ہے یہ ہستی اپنی سیکڑوں عکس ابھرتے ہیں بکھرنے کے لیے آئینہ خانے کی ویرانی کا عالم یہ ہے ایک بھی عکس کو محفوظ نہیں رہنا ہے عکس در عکس ...

    مزید پڑھیے

    دسمبر

    طاق دل پہ تری یادوں کو سجا رکھا ہے اس تبرک کی ضرورت مجھے جب پڑتی ہے اپنی آنکھوں سے لگاتی ہوں انہیں چومتی ہوں اور پھر طاق پہ دوبارہ سجا دیتی ہوں عہد فرقت میں شب و روز گزر جاتے ہیں تیری یادیں ہیں کبھی پھول کی صورت دل میں اور کبھی موتیوں کی طرح سے آنسو بن کر چشم احساس سے دامن پہ بکھر ...

    مزید پڑھیے

    ذرا تم طاق پر رکھے محبت کے دیے کو پھر جلاؤ

    اندھیرا بڑھ رہا ہے اندھیرا بڑھ رہا ہے اور ہم دونوں کی آنکھیں بھی ذرا کم نور ہوتی جا رہی ہیں اس لئے ایسا کرو اک بار پھر سے جو گزشتہ عہد میں وعدے کیے تھے محبت کے جو نغمے گنگنائے تھے وفا کے پھول جو برسائے تھے وہ دھیان میں لاؤ چلو اک بار پھر دہراتے ہیں خود کو سنو ہم دونوں کی آنکھیں اگر ...

    مزید پڑھیے

    نور کا بوسہ

    مرے ندیم میں حیران سوچتی تھی یہی کہ یہ بدلتی ہوئی رت یہ سرد سرد ہوا تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو کیسی چلتی بھلا نظر طلسم تمنا سے جگمگاتی ہوئی ہمارے ہاتھ تھے اک دوسرے کے ہاتھوں میں بہت سے وعدے محبت کے سیکڑوں قصے سنا رہے تھے ہم اک دوسرے کو چلتے میں کہیں کہیں پہ زمانہ بھی راہ میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم صرف تمہارے لیے

    مجھ میں آتش جو چھپی ہے اسے بھڑکانے میں وصل سے زیادہ ترے ہجر کی خواہش ہے مجھے جسم اور جان سے آگے بھی کوئی دنیا ہے اور ان راہوں میں تنہا ہی بھٹکنا ہے مجھے اور ان راہوں میں تنہا ہی بھٹکنا ہے مجھے تجھ کو تسخیر بدن کی ہی رہی ہے خواہش اور میں روح کے سودے کے لیے سوچتی ہوں تجھ کو معلوم ہے ...

    مزید پڑھیے

    ادھوری تصویر

    اے مصور مری تصویر پڑی ہے کب سے اب کسی طور ذرا اس کو مکمل کر دے اپنی تخلیق میں وہ رنگ بھی شامل کر دے جو ترے ذوق ہنر کی بھی گواہی ٹھہریں جھیل سی آنکھوں کی گہرائی میں تو ڈوب گیا سرخ ڈورے جو ہیں حیرت کے نہ دیکھے تو نے لب کے پیمانے تری پیاس بجھاتے ہیں مگر تشنہ پیمانوں کو تو جرأت اظہار ...

    مزید پڑھیے

    کچا رنگ

    سبز زرد سرخ اور بنفسی چمن کے سارے رنگ پر کشش ہیں مگر میں ڈر رہی ہوں کہ کوئی رنگ اڑ کے مرے دوپٹے کے ژولیدہ رنگوں پہ چڑھ نہ جائے تمنائے دل کے کینوس پر مجھے تماشائے فن تجرید سے دور رکھنا میں اپنا پیراگی رنگ اوڑھے چمن کو بس دور سے تک رہی ہوں مجھے تمہارے رنگوں سے کیا لینا دینا میں کچے ...

    مزید پڑھیے

    گریۂ تحیر

    بڑا ہی پیارا لگے ہے یہ طفل گریہ کناں کسی کھلونے کے چھننے پہ رو رہا ہے بہت ستارہ آنکھوں میں موتی چمک رہے ہیں بہت ہے اپنے کارگر ہستی میں محو راہ ملے جو مہلت مصروفیت تو دیکھے اسے ابھی وہ آئے گی اور بے قرار ہو کے اسے اٹھا کے بانہوں کے حلقے میں پیار کر لے گی پھر اپنے ملگجے آنچل میں اس کے ...

    مزید پڑھیے

    حرکت معکوس

    نظام سرمایہ داری کام اپنا دکھا چکا ہے ہر طرف آگ لگ چکی ہے تجارت غم پنپ رہی ہے دکھوں کا کاروبار بڑھ گیا ہے گلوبل ولیج کی آزاد مارکیٹ میں حصول انصاف عنقا ہو چکا ہے آزادیٔ رائے کے نام پر پیچیدہ افکار پک رہے ہیں کہیں پہ سائنس فتح کے نعرے لگا رہی ہے کہیں پہ انسانیت اپنا چہرہ چھپا رہی ...

    مزید پڑھیے