بے طلب کر کے ضرورت بھی چلی جائے اگر

بے طلب کر کے ضرورت بھی چلی جائے اگر
ڈر رہی ہوں کہ یہ وحشت بھی چلی جائے اگر


شام ہوتے ہی ستاروں سے یہ پوچھا اکثر
شام ہونے کی یہ صورت بھی چلی جائے اگر


اک ترا درد سلیقے سے سنبھالا لیکن
دیدۂ تر سے طراوت بھی چلی جائے اگر


یہ تو ہے خون جگر چاہئے لیکن اے دل
شعر کہنے کی رعایت بھی چلی جائے اگر


میں تو حیران پریشان یہی سوچتی ہوں
آئینہ خانے سے حیرت بھی چلی جائے اگر


اک نظر بھر کا ہی سودا چلو منظور ہمیں
کم نگاہی کی یہ مہلت بھی چلی جائے اگر


وہ گیا ہے تو مجھے کام ہی اب کوئی نہیں
کیا ہی اچھا ہو کہ فرصت بھی چلی جائے اگر


دل کے ملبے میں تمنا نے یہ حسرت سے کہا
کیا ہو تعمیر کی حسرت بھی چلی جائے اگر


تیری فرقت بڑی دشوار مگر ایسے میں
یاد کرنے کی سہولت بھی چلی جائے اگر


اب نشاط غم فرقت سے سوال اتنا ہے
تعزیہ داری کی لذت بھی چلی جائے اگر