کاوش روزگار نے عمر رواں کو کھا لیا

کاوش روزگار نے عمر رواں کو کھا لیا
دشت سکوت نے مرے زمزمہ خواں کو کھا لیا


ہائے وہ صبح بے بسی ہائے وہ شام بے کسی
ساعت بد نے اس دفعہ آزردگاں کو کھا لیا


تذکرے رہ گئے فقط وہ بھی ہیں کتنی دیر تک
تو نے سکوت بے کراں حرف و بیاں کو کھا لیا


کاسۂ وقت میں کوئی سکۂ روز و شب کہاں
باد فنا نے خطرۂ سود و زیاں کو کھا لیا


ہستیٔ خوش گماں سنبھل سوچ سمجھ کے چال چل
عالم نیست نے ہر اک نام و نشاں کو کھا لیا


خیمۂ وصل جل گئے ہمرہی رہ بدل گئے
اور شب فراق نے قلب تپاں کو کھا لیا