طاہر تلہری کی غزل

    سورج کی طرح اپنے ہی محور میں قید ہوں

    سورج کی طرح اپنے ہی محور میں قید ہوں صدیوں سے روشنی کے سمندر میں قید ہوں سر سے گزرتی جاتی ہیں لمحوں کی آندھیاں میں ہوں کہ ماہ و سال کے چکر میں قید ہوں کیا کیا نہ سوچتا ہوں میں فردا کے باب میں حالانکہ جانتا ہوں مقدر میں قید ہوں چاہوں تو کائنات کے خرمن کو پھونک دوں تم کیا سمجھ رہے ...

    مزید پڑھیے

    باڑھ آئی گاؤں کو دریا بہا کر لے گیا

    باڑھ آئی گاؤں کو دریا بہا کر لے گیا ایک پیاسا دوسرے پیاسے کو آ کر لے گیا روح میں صدیوں کا سناٹا بسا کر لے گیا میں جو ارض شہر سے صحرا اٹھا کر لے گیا ذہن کی الماریوں میں دھول سی اڑنے لگی کوئی الفاظ و معانی سب چرا کر لے گیا رہ گیا قائم پھر اس کی پاک بازی کا بھرم پھر وہ اک شیطان سے ...

    مزید پڑھیے

    حیات و موت کی الجھن میں ڈالتا کیوں ہے

    حیات و موت کی الجھن میں ڈالتا کیوں ہے یہ تہمتیں مرے اوپر اچھالتا کیوں ہے اب آ گیا ہوں تو خطرے میں ڈالتا کیوں ہے اندھیری رات میں گھر سے نکالتا کیوں ہے ابھی معاملۂ کائنات طے کر دے ذرا سی بات قیامت پہ ٹالتا کیوں ہے کسی طرح بھی تو انساں ترا حریف نہیں پھر اس غریب کو تو مار ڈالتا ...

    مزید پڑھیے

    جو ہم کہیں وہی طرز بیان رکھتا ہے

    جو ہم کہیں وہی طرز بیان رکھتا ہے وہ اپنے منہ میں ہماری زبان رکھتا ہے رسائی تا بہ سر لا مکان رکھتا ہے پرند فکر غضب کی اڑان رکھتا ہے سنا ہے پاؤں تلے آسمان رکھتا ہے فقیر شہر بڑی آن بان رکھتا ہے وہ جس کو سایۂ دیوار تک نصیب نہیں نہ جانے ذہن میں کتنے مکان رکھتا ہے بہت بلیغ ہے انداز ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی مل سکی نہ گھڑی بھر کسی کے ساتھ

    تنہائی مل سکی نہ گھڑی بھر کسی کے ساتھ سایہ بھی میرے ساتھ رہا روشنی کے ساتھ روشن ہوا نہ کوئی دریچہ مرے بغیر اک ربط خاص رکھتا ہوں میں اس گلی کے ساتھ دو دن کی زندگی میں بھی دھڑکا تھا حشر کا کرتے رہے گناہ مگر بے دلی کے ساتھ میں بے عمل تھا فرد عمل کیسے بن گئی کیسا مذاق ہے یہ مری بے ...

    مزید پڑھیے

    آ گیا یاد خدا آخر کار

    آ گیا یاد خدا آخر کار اٹھ گیا دست دعا آخر کار ہم کہ تھے سرکش و مغرور بہت سر جھکانا ہی پڑا آخر کار کان سے جو نہ سنا تھا پہلے آنکھ سے دیکھ لیا آخر کار دل میں اب کوئی تمنا نہ رہی بجھ گیا یہ بھی دیا آخر کار آئے جس کے بھی قدم دھرتی پر ایک دن مر ہی گیا آخر کار

    مزید پڑھیے

    خوشبو کا جسم یاد کا پیکر نہیں ملا

    خوشبو کا جسم یاد کا پیکر نہیں ملا دل جس سے ہو شگفتہ وہ منظر نہیں ملا آخر بجھاتا کیسے وہ اپنی لہو کی پیاس تلوار مل گئی تو کوئی سر نہیں ملا ناگاہ دوستوں کی طرف اٹھ گئی نگاہ جب دشمنوں کے ہاتھ میں خنجر نہیں ملا پھرتا ہوں کب سے نقد دل و جاں لیے ہوئے میں وہ سخی ہوں جس کو گداگر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    میں اک بہتا دریا ہوں

    میں اک بہتا دریا ہوں لیکن کتنا پیاسا ہوں راہ میں گم صم بیٹھا ہوں اک اک کا منہ تکتا ہوں تجھ کو اپنا کہتا ہوں کتنا بھولا بھالا ہوں دھوپ میں تپتا صحرا ہوں جنم جنم کا پیاسا ہوں پھر تجھ تک لوٹ آیا ہوں شاید کھوٹا سکہ ہوں اکثر تیرے بارے میں سپنے دیکھا کرتا ہوں تو بھی ایک کھلونا ...

    مزید پڑھیے

    میرا مقصود نظر لوح مقدر میں نہیں

    میرا مقصود نظر لوح مقدر میں نہیں میں وہ موتی ڈھونڈھتا ہوں جو سمندر میں نہیں بات کرنے کی بھی اب فرصت نہیں شاید اسے میں نے جب آواز دی کہلا دیا گھر میں نہیں کس طرح سے دھوئیے چہرے سے گرد ماہ و سال اتنے آنسو بھی تو اپنے دیدۂ تر میں نہیں جگمگا سکتی ہو جس سے خامشی کی ریگ دل اتنی آب و ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تو سوغات اس کے شہر کی گھر لے چلو

    کوئی تو سوغات اس کے شہر کی گھر لے چلو کچھ نہیں تو جسم پر زخموں کی چادر لے چلو پیار کے بوسیدہ پھولوں کی یہاں قیمت نہیں شیش محلوں سے گزرنا ہے تو پتھر لے چلو ہوں گے ارباب تماشا میں کچھ اہل درد بھی چند آنسو بھی تبسم میں چھپا کر لے چلو رات جب بھیگی تو سائے نے مجھے آواز دی میں ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2